شہر قائد میں چند دن
"مبارک ہو آپ خوش قسمت نکلے ٹرین لیٹ ہوچکی
ہے " ایک صاحب چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے مخاطب ہوئے ۔
میں نے اپنا سفری بیگ سنبھالا اور پلیٹ فارم پر مٹر گشت کرتے ہوئے کتابوں کے سٹال پر جاپہنچا سفر ہو ہا حضر ہو کتاب میرا ایک بہترین ساتھی ہے ۔اخبار جہاں سنڈے میگزین اور سینکڑوں جرائد رسائل پر ایک طرانہ نظر ڈالی تو اچانک نظریں ایک جگہ رک گئیں۔قیمت کیا ہے پیسے تھمائے اور کتاب بینی میں مصروف ہوگیا "تاریخ اقوام عالم قدیم ۔۔۔مصنف سینوویس ترجمہ سید محمد اعظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گذشتہ ہفتے کوہماراشہر قائد جانے کا اتفاق ہوا جس میں مقصود کراچی کے تمام بڑے مدارس کا مطالعاتی دورہ اور اکابرین علماء کرام کی زیارت کرنا تھا ۔ہمارے ادارے جامعہ فتحیہ(ذیلدار روڈ اچھرہ لاہور قائم شدہ1875ء) کا طرہ امتیاز ہے کہ جہاں طلباء کی تعلیم وتربیت کیلئے بہت سی آؤٹ پیٹرن سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے وہیں درس نظامی کورس کے آخری سال کے طلبا کو ملک کی معروف اسلامی جامعات کا دورہ بھی کرایا جاتا ہے گذشتہ سال بھی بیس افراد پر مشتمل وفد نے دورہ کیا اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے امسال بھی انتطامیہ کی طرف سے پھرپور تعاون کے بعد روانگی کا دن متعین ہوا لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے مجھے ساتھیوں سے علیحدہ سفر کرنا پڑا ۔ لیکن جب مقررہ دن اسٹیشن پہنچا میرے خیال کے مطابق ٹرین کا ٹائم جو تھا وہ اصل وقت سے ایک گھنٹہ بعد کا تھا ۔ جیسے ہی اسٹیشن کی حدود میں داخل ہوا ایک جم غفیر کو جیسے ہی اترتے ہوئے دیکھا تو اچانک خوف کی لہر جسم میں دوڑ گئی ۔ جیب سے ٹکٹ نکالا جیسے ہی ٹائم پر نظر پڑی تو 5:00pmمیرا منہ چڑا رہا تھا میں بوجھل قدموں سے آفس کی ونڈوز کی طرف بڑھا تاکہ نصف قیمت واپس لوٹ آئے ۔ لیکن اہلکار نے جیسے ٹکٹ پر نظر دوڑائی اور ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ واپس تھما دی اور کہنے لگا ٹرین چار گھنٹے بعد آئی گی شکر ہے نیا پاکستان تھا ورنہ گاڑی سے ہاتھ دھونے پڑتے ۔ خدا خدا کرکے پانچ گھنٹے بعد ٹرین آئی ۔ خاموشی سے اپنی برتھ سنبھالی اور ایک آدھ ٹیکسٹ میسج سکرین پر نمودار ہوتا ان کے جواب دیتے دیتے نہ جانے کب نیند کی آغوش میں جا پہنچا گا ڑی انتہائی تیز رفتاری سے فراٹے بھرتے لق و دق صحراوں کو عبور کرتی جا رہی تھی ۔ رات بیت گئی سورج کافی بلندی پر تھاا۔ جیسے جیسے منزل قریب ہوتی جا رہی تھی گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا جس سے اندازہ ہوگیا شہر قائد میں موسمی صورتحال کیاہوگی ۔ جن علاقوں سے گزر رہا تھا وہاں کے باسیوں کو طائرانہ نظر سے دیکھ رہا تھا اور ان کی اس پستی پر افسوس کررہا تھا کہ ان گمنام صحراوں میں کیسے وہ موت کا انتظار کررہے ہیں ۔ دور دور تک کسی انسان کا ایک ایک آدھ ہیولا حرکت کرتے دکھائی دیتا آبادی نہ ہونے کے برابر تھی ۔ کہاں وہ چکاچوند روشنیاں اور کہاں بے آب گیاہ صحرا۔ انسانی زندگی بھی کن حالات سے گزر اور کتنے گھٹن مراحل طے کرکے اس دور میں آئی اس کا اندازہ اب ہورہا تھا ۔ اتنے آبادی کے آثار نظر آنے لگے جس دیکھ کر اندازہ ہوا منزل قریب ہے لیکن اچانک گاڑی رک گئی،معلوم ہوا کہ یہ کراچی کا مشہور جگہ لانڈھی ہے میں کئی نسلی گروہ موجود ہیں جن میں محاجس ، سندھ ، کشمیر ،سرائیکس ، پختون ، بلوچ ، میمن ، بوہراس ، ہارسیفیلس اور اسماعیلوں شامل ہیں لانڈہی کراچی کےمشرقی حصے میں واقع ہے، جس میں ملیر ٹاؤن اور کورنگی ٹاؤن کے درمیان واقع ہے . علاقے 6 حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، .
ساحل سمندر پر |
کوئی نصف بیٹھا ہے، آدھا کھڑا ہےجہاں بھی کھڑا ہے وہیں پر گڑا ہےکسی کی گھڑی پر کسی کا گھڑا ہےکہاں ہاتھ تھا اور کہاں جا پڑا ہےجو دیوار تھی اس میں در ہو رہا ہےکراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہےجو کالر تھا گردن میں، 'لر' رہ گیا ہےٹماٹر کے تھیلے میں 'ٹر' رہ گیا ہےخدا جانے مرغا کدھر رہ گیا ہےبغل میں تو بس ایک پر رہ گیا ہےکوئی کام ہم سے اگر ہو رہا ہےکراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
15 روپے کرایہ اور 2:15 گھنٹے اس اڑن گٹھولے پر سوار رہا جو پرانے پاکستان میں شائد ہواؤں کے دوش پر چلا کرتا تھا اب حوادثات زمانہ نے اس کو اس مقام پر پہنچا دیا ۔ایک ہمسفر سے بات کی کہ یہ کیا مسئلہ بنا ہے اتنی زیادہ ٹریفک جام اور سروس بھی وقفے وقفے سے زیارت کراتی ہے ۔کیوں؟"ارے بھائی جان آج ایک فرقہ عبادت میں مصروف ہے"موصوف نے سمجھانے کے انداز میں کہا ۔۔وہ کون سی عبادت جو کرتے وقت کروڑوں لوگوں کی زندگی داؤ پر ۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا ۔بہرحال یہ ایک ایسا مسئلہ ہیں جو ایک خطرناک صورتحال اختیار کرچکا ہے ۔ ہر سال پورا مہینہ سیکورٹی ادارے سر دردی کا شکار رہتے ہیں زندگی مکمل طور پر اجیرن ہوکر رہ جاتی ہے ۔ بالآخر حکومت اس مسئلہ کو سنجیدہ کیوں نہیں لیتی اس کی وجہ کیا ہے بالآخر تیس منٹ کا سفر تین گھنٹے میں مکمل کیا جیسے ہی ناظم آباد کے قریب پہنچا تو موبائل سکرین پر میسج نمودار ہوا "ناظم آباد 7 نمبر سٹاپ مجاہد کالونی بلاک نمبر 4 دفتر روزنامہ اسلام " پاس بیٹھے ہوئے مسافر کو متوجہ کرکے ٹیکسٹ دیکھایا تو موصوف نے بڑے نرم لہجے میں ساری لوکیشن سلجھائی ۔ اور کنڈکٹر کو ہدایات دیتے ہوئے خود "لالوکھیت " نامی سٹاپ پر اتر گیا گاڑی اپنی دھیمی رفتار سے منزل کی طرف رواں دواں تھی ۔ میں ایک ایک چیز کو نوٹ کررہا تھا ۔ کراچی کے باسیوں میں صبر ، مہمان نوازی ، ہمدردی ،اعتدال پسندی اور خود اعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔جس کا مشاہدہ راہ چلتے سفر کرتے کسی سے راستہ پوچھتے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔" ناظم آباد سٹاپ نمبر4"اچانک آنے والی آواز نے مجھے چونکا دیا جلدی سے بیگ اٹھا یا اور اتر گیا ۔ چند آدمیوں کی راہنمائی کے بعد مطلوبہ مقام پر پہنچ گیا گیٹ پر سعیداللہ بھائی کو منتظر پایا ۔ حال احوال دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ آج کا دن سارے وفد جامعہ الرشید سے ہوتا ہوا مزار قائد پر حاضری دے کر واپس آچکا ہے۔نماز کے بعد مولانا افتخار صاحب سے ملاقات ہوئی انہوں سارے ساتھیوں کو دفتر روزنامہ اسلام کا تفصیلی دورہ کرایا جس میں میڈیا سیل ، نیٹ نیوز سیل ، کمپوزنگ و ڈیزائنگ سیل اور اداریہ شامل تھا ۔ تمام احباب سکرینوں پر نظر جمائے اپنے کام میں اتنے مگن تھے کہ کسی کے آ نے کی ان خبر تک نہ ہوئی جو انکی اس کام سے لگن اور خلوص کو عیاں کررہی تھی ۔ گائیڈ نے بتایا کہ یہاں مکمل عالمی خبروں پر مشتمل پینل تیار کرکے 12:00 بجے تک تمام بڑے شہروں کو روانہ کر دیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد اس میں علاقائی خبروں کا اضافہ کرکے اس کو پرنٹ کردیتے ہیں ۔ پھر مولانا صاحب نے سندھی پکوانوں سے تواضح کرکے رخصت کیا ۔ رات مسجد الرشید میں گزاری نماز کے وقت ایک جانکاہ خبر بجلی بن کر گری کہ اس امت کا درد رکھنے والے دسویں باثر ترین شخصیت محترم بھائی حاجی عبدالوہاب صاحب سفر آخرت کوروانہ ہوئے میں نے اس بات کی تصدیق مرکز میں موجود ایک ساتھی سے کرکے کراچی تا خیبر احباب کو اطلاع دی کیسے کیسے ہیرے کٹنے لگے بہرحال یہ ایک قدرت کا فیصلہ تھا سو ہوگیا ہمارے لئے جنازے میں شرکت کرنا محال تھا باوثوق ذرائع کے مطابق کراچی ائیر بیس پر جو حکومتی اقدامات قابل تحسین تھے جنازے میں شرکت کیلئے آنے والوں کو الٹی چھری سے ذبح کیا گیا جس میں قصائی وزارت شہری ہوبازی اور تماشائی حکومت تھی صبح کو قبرستان میں مجاہد اسلام حضرت مولانا علامہ مفتی رشید صاحب کے مرقد پر حاضری دے کر جامعہ بنوریہ ٹاؤن کی طرف روانہ ہوئے وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ ڈاکٹڑ صاحب دیر سے آئیں گے ۔ ہم نے موقع کو غنیمت جان کر ایک ہوٹل پر بغرض ناشتہ براجمان ہوئے جب ناشتے سامنے آیا تو حیران رہ گئے کہ کراچی پراٹھے لاہور کے بسکٹوں سے بڑے نہ تھے ۔ ایک دوسرے کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا اور چاروناچار ان پر ہی ہاتھ صاف کرنے لگے۔ دس بجے جامعہ گئے ضروری کاروائی کے بعد اندر جانے کی اجازت ملی ای عجیب سا سکون محسوس ہونے لگا ۔ان کے ایک خادم نے اکرام کے بعد دفتر کی طرف راہنمائی کی ۔ اپنے اندر داخل ہوئے تو جیسے ہی کرسی پر نظر پڑی بے اختیار زبان سے نکلا "ماہذا بشرا۔۔۔۔" ایک نورانی پرسکون چہرہ ،سفید ریش ، بظاہر ناتواں جسم لیکن لوہے سے مضبوط اور پہاڑ سے بلند عزائم سینے سموئے ایک شخصیت برجمان تھی ۔ استاد محترم مولانا عبداللہ مدنی البرنی صاحب نے مختصر تعارف پیش کیا تو ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر صاحب بڑے خوش ہوئے ڈھیروں دعاؤں سے نواز کر رخصت کیا جلدی سے وہاں نکل کر نماز ظہر فاروقیہ میں ادا کی ۔ نماز کے بعد ناظم تعلیمات حضرت مولانا خالد صاحب سے ملاقات ہوئی مختصر دورہ کرایا بیمار ہونے کی وجہ سے ان سے زیادہ استفادہ نہ ہوسکا ۔ اس کے بعد جامعہ دارالعلوم کراچی کا رخ کیا وہاں پہنچ کر نا کر ہمارے لئے ناظم دارالاقامہ بہترین رہائش کا انتظام دار علی باب احمد بن حنبل میں کیا اس کے بعد استاد محترم مولنا عدنان معاویہ صاحب سے رابطہ ہوا جس میں غازی اورنگزیب صاحب سے ملاقات کی خوہش ظاہر کی جب فاروقی صاحب تک بات پہنچی تو وہ دارلعلوم کے گیٹ سے دس منٹ پہلے گزر کر ائرپورٹ روانہ ہوچکے تھے یوں ان سے ملاقات کی حسرت دل میں رہ گئی۔ جس پر حضرت سیدنا علی رض کا قول زبان پر آیا "عرفت ربی بفسخ العزائم" جس سے کچھ تسلی ہوئی ،رات قیام کے بعد صبح کو پہلے شیخ الاسلام حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب کے اسباق میں شرکت کی اس کے بعد ان کو اپنےآنے کے بارے میں مطلع کیا انہوں نے خصوصی شفقت فرمائی ہمیں کچھ وقت دیا چند نصیحتیں کرکے رخصت کیا پھر تین گھنٹے لائبریری میں گزارے اس کے بعد مولانا رفیع عثمانی صاحب کے اسباق میں شامل ہوئے ۔سبق کے بعد خصوصی ملاقات ہوئی ، ہماری اگلی منزل احسن العلوم تھی مختصر مسافت کے بعد وہاں پہنچے تو نماز عصر ادا کی معلوم ہوا شیخ مفتی زرولی صاحب کسی دورے پر ہیں وہاں کے کسی صاحب نے مختصر دورہ کرایا اس کے بعد اگلا قیام عارف باللہ مجدد زماں حضرتے مولانا پیر حکیم اختر صاحب کے بیٹے حضرت مولانا حکیم مظہر صاحب کی خانقاہ میں ہوا تو شیخ سے دعاو سلام ہوئی اس کے بعد حضرت نے خصوصی نشست لگائی جس میں حالات حاضرہ پر سیر حاصل گفتگو کی ان کے پاس قیام کیا رات کو مدنی مسجد تبلیغی مرکز کیلئے روانی ہوئے لیکن وہ کسی نامعلوم وجوہ کی بنا پر بند تھا اس کے بند ہونے فلسفہ ہماری سمجھ سے بالا تر تھا حالانکہ مراکز رات گئے تک کھلے ہوتے ہیں پھر اگلی صبح کیماڑی کا رخ کیا ویاں سے بوٹس کے ذریعے منہوڑہ جزیرے پر جا پہنچے
جامعۃ الرشید میں عشائیہ |
تقریب تکمیل بخاری شریف |
Thank you for visiting our website