وہ گذرے چار سال ـــــ یا ـــــــــ چار صدیاں
ہر ذی روح نے موت کو چکھنا ہے اور تم کو
تمہارے اجر کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا پس جو آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں
داخل کر دیا گیا وہ کامیاب ہو گیا(القرآن)
اور وہ ذات جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم کو آزمائے کہ
تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والاہے(القرآن)
======================================
دنیا کی زندگی عارضی زندگی ہے جب کہ ہماری حیثیت جہاں میں ایک مسافر
کی طرح ہے جو ذرا سستانے کے لیے درخت کے نیچے آرام کرتا ہے پھر وہ اپنی منزل کو
روانہ ہو تا ہے ۔دنیا میں ہر کوئی جیتا ہے اور اپنا وقت ختم کرکے نظروں سے اوجھل
ہوجاتا ہے جو اپنے حقیقی مقصد کو سامنے رکھتا اور اسے پورا کرنے کی کوشش میں لگا
رہتا ہے حقیقی معنوں میں وہی ایک کامیاب انسان ہوتا ہے۔
دنیا میں ہرکسی کا آنا جانا ہے بعض ایسے ہیں جن کا جانا قابل رشک بن
جاتا ہے ان میں سے ایک ہمارے عزیز اور محترم "شہریار" مرحوم ہیں جو
ظاھری طور پر دنیا سے انتقال کر چکے ہیں لیکن ان کا عزم آج بھی زندہ ہے انہوں نے
اپنی زندگی کے ابھی بمشکل تیس بہاریں دیکھی ہوں گی کہ تقدیر کا فیصلہ آگیا اور
ایسے وقت میں آیا کہ وہ اس کو تسلیم کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار تھے۔اتنے ناز و
نعمت میں پلے اور عیش و عشرت میں ہونے کے باوجود زندگی کے آخری ایام میں
پرہیزگاری، تقوی، خوف خدا ،نماز میں خشوع خضوع، اللہ کی درگاہ سجدہ ریزی جیسی عالی
صفات کے مالک بنے۔
گزشتہ رمضان کے مہینے میں محترم حضرت
مولانا عدنان معاویہ صاحب کے ساتھ دعوت تبلیغ کے سلسلے میں بلوچستان سفر کرنے کا
اتفاق ہوا تو ساتھ مرحوم کے استاد شیخ عبد الغفور صاحب بھی ہمراہ تھے۔
ایک دن باتوں باتوں میں تذکرہ آیا تو حضرت فرمانے لگے کہ ماشاءاللہ سنجیدہ لڑکا
ہے پھر فرمایا کہ اس سال تو میں نے اس میں غیر معمولی تبدیلی دیکھی میں صبح سویرے
4 بجے اٹھتا تاکہ نوافل پڑھ کر تھوڑی دیر مطالعہ کر سکو لیکن جب وضو کر کے مسجد کی
حالت میں داخل ہوتا تو کیا دیکھتا کہ شہریار مرحوم اپنا سراس ذات کی بارگاہ
میں جھکا رہا ہوتا۔بے اختیار منہ منہ سے نکلتا یاخدایا یہ جوانی اور خدا
خوفی کا یہ عالم۔۔۔
امانت سچائی ایمانداری کسی کی میراث نہیں ہوتی غریب طبقے سے لے کر
امراتک میں سے کوئی بندہ بھی مالک بن سکتا ہے۔عام طور پرجب رجب شعبان میں دینی
مدارس کی تعلیمی سال کا اختتام ہوتا ہے تو طلباء اپنے گھروں کا رخ کرتے ہیں لیکن
بہت سارے خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں جو اس علمی مشغلہ کے دوران ہی اپنے خالق حقیقی سے
جا ملتے ہیں اگر میں یہ کہوں کہ جا تے نہیں بلکہ بلائے جاتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
شہریار اپنے بھائی کے ہمراہ |
مرحوم آج سے تیس سال قبل سنو 1995 کو ایک مالی طور پر
مضبوط گھرانے میں آنکھ کھولی گھر میں ہر طرف مادی وسائل کو اختیار کرنے کے تذکرے
سنے ۔اسی سے متاثر ہو کر اپنی ابتدائی تعلیم کیلئے "دارارقم پبلک سکول کھوڑ کمپنی" میں داخلہ لے لیا وہاں سے جب پرائمری کا امتحان
پاس کیا تو اسوقت ان کے والد محترم ناصر مسعود وہاں کے ایک مشہور اور معروف دینی
ادارے مدرسہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے بانی اور مہتمم اول حضرت
مولانا مفتی عبدالبصیر صاحب حفظہ اللہ سے کافی طور پر متاثر ہوچکے تھے اسی اثر کا
نتیجہ تھا کہ اپنے چہرے کو سنت رسول اللہ سے بھی مزین کر لیا اس کے علاوہ دعوت
تبلیغ میں بھی کافی وقت لگا یا تو ان کی زندگی میں ایک انقلاب برپا ہوا اسی انقلاب
کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے اپنے لخت جگر کو دنیاوی تعلیم دینے کی بجائے
علم دین حاصل کرنے کے لیے مدرسہ بھیجنے کا ارادہ کرلیا ۔مدرسے آنے سے قبل وہ اسی
سکول میں شعبہ تحفیظ القرآن میں علاقے کے معروف ماہر استاذ قاری محمد صدیق صاحب
سے تقریبا ابتدائی ایک حصہ مکمل کر چکاتو اس کو علاقے کی مشہور دینی درسگاہ مدرسہ
سیدنا ابوہریرہ میں داخل کر ادیا گیا ۔ادارے میں داخل ہونے کے بعد وہاں پر ان کو
حضرت مولانا قاری محمدنذیر گورمانی جیسے مشق استاد کی رہنمائی مل گئی ۔حضرت قاری صاحب کی شفقت و توجہ نے مرحوم کے اندر چھپے ہوئے
گوھر نایاب کو ایک نئی جلا بخشی ۔حضرت قاری صاحب کی محنت اور والدین کی
دعاؤں کے نتیجے میں مرحوم نے 30 ماہ کے قلیل عرصے میں قرآن مجید بمعہ
گردان اپنے سینے میں محفوظ کر کے"حافظ قرآن " کا اعزاز حاصل کرلیا
حفظ مکمل کرنے کے بعد دوبارہ اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہوا لیکن والد صاحب کی مداخلت سے
ارادہ منسوخ کر دیا اور باقاعدہ طور پر درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسہ
جامعہ اسلامیہ بارہ کہو اسلام آباد کا رخ کیا وہاں پر داخل ہوکر درس نظامی کی
ابتدائی کتابیں پڑھیں ۔ لیکن گھر کی یاد ستانے لگی تو محترم سمسٹر مکمل کیے
بغیر سال ختم ہونے سے تین ماہ پہلے دوبارہ گھر آگئے ۔کچھ دن ٹھہرے اپنے کئے پر
نادم ہوئے تو پھر ایک مرتبہ نئے عزم کے ساتھ مدرسہ سیدنا ابوہریرہ میں داخلہ لیا
وہاں پر مشفق استاد استاد محترم حضرت مولانا قاسم نثار صاحب اور استاذ محترم حضرت
مولانا مفتی عبدالبصیر صاحب کی زیرنگرانی سال اول کی کتابیں مکمل کی اور دوسرے سال
میں ان اساتذہ کے علاوہ مولانا سجاد حیدری حضرت مولانا عبدالصمد صاحب حضرت مولانا
عدنان معاویہ صاحب اور حضرت مولانا عبید رومان صاحب سے اپنے دوسرے سال کی کورس کی
تکمیل کی۔
چند دنوں کے بعد اس مدرسے کے ڈسپلن نظم و ضبط اور اعلی تربیت نے ان
کو ایک مکمل اسلامی سانچے میں ڈھال دیا وہ اپنی والدین کی امیدوں پر پورا اترنے
لگے۔وہاں پر تین سال کا عرصہ گذار کر تعلیمی دور کے آخری مراحل میں داخل ہوگئے تو
قدرت کا فیصلہ آگیا جس پر سر تسلیم خم کرلیا۔
میرا 8 دسمبر انیس ربیع الاول 2017 کو مدرسے میں جانے کا اتفاق ہوا
نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد نورمحمد نانبائی کی زبان سے اس کی انتقال کی جانکاہ
خبر سنی دل تسلیم نہیں کرتا تھا لیکن جب محترم قاری صاحب کی تحقیق پر حقیقت کا پتہ
چلا توغم کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا کوئی سجھائی نہیں
دیتا تھا ۔ جلدی سے مسجد کا ایمپلی فائر آن کر کے کھڑا ہو گیا جسم ساکن تھا لیکن
زبان سے کچھ الفاظ نکل کر سماعتوں سے ٹکرانے لگے۔الفاظ اپنی زبان سے نکل رہے تھے
لیکن اپنا ہی دماغ ان کو قبول کرنے سے انکاری تھا۔
” شریار ناصر ولد ناصر مسعود کا انتقال ہوگیا
آج رات کو مقامی قبرستان میں ان کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی“
پھر جلدی سے قاری صاحب اور عبید صاحب کے ساتھ ان کے گھر کی راہ لی
مولانا سجاد حیدری صاحب راستے میں ملے تو تیز قدم اٹھاتے ہوئے ان کے ننہال پہنچ
گئے وہاں جا کر دیکھا تو ایک کہرام برپا تھا اس کے عزیز و اقارب جن میں اس کا چچا
راشد اور شیراز اور والد محترم سب غم سے نڈھال تھے اور انکی بھائی حمزہ سے
ملاقات ہوئی لیکن وہ بھی ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا۔ہر آنکھ اشکبار ،ہر چہرہ
غمگین، ایک دو جاننے والوں سے بات کی تو اندر پہنچنے کا راستہ ملا اندر جب
وہاں پہنچ کر دیکھا تو زبان گنگ ہوگئی ،جسم نے ساتھ دینا چھوڑ دیا ،ہمت جواب دینے
لگی ،برداشت ختم ہو گئ،ی نظر جو پڑی پلنگ پر ایک بے جان لاشے نظر آیا ،قوت جواب دے
چکی تھی۔ کھڑے ہونے کی طاقت نہ رہی سو واپسیہ کی راہ لی۔
نماز عصر کے بعد جب دوبارہ وہاں پہنچا اساتذہ کرام کو دیکھا کہ
غسل دینے کی تیاری کر رہے تھے جن میں محترم قاری محمد نذیر صاحب استاذ محترم حضرت
مولانا مفتی عبدالبصیر صاحب اور حضرت مولانا سجاد حیدری صاحب شامل تھے
آخرت کی طرف روانہ ہونے سے پہلے اس کو تیار کرنے کے لیے وہ یہی
استاد ہیں جو اس کی زندگی میں ایک حقیقی انقلاب لا چکے تھے یہ دیکھ کر میں سوچنے
لگا کہ استاد کا رشتہ بھی کتنا عجیب ہوتا ہے کہ استاد محترم کے ساتھ دو موقعوں پر
اکثر شریک ہوتے ہیں ایک نکاح کے وقت اور دوسرا دنیا سے روانہ ہوتے وقت اور دونوں
وقت میں خاص کر دینی طلباء نے سفید جوڑا زیب تن کیا ہوتے ہیں۔پھر جب جنازہ چلا تو
ایسا غضبناک منظر میں نے دیکھا کہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا بے اختیار آنسو
گرنے لگے پھر ایک قافلہ نکلا جس کے کندھوں پر ایک سوار تھا جس کا جانا قابل رشک
تھا۔
جنازہ گاہ پہنچنے تو دیکھا ہر آدمی اس کی موت پر رشک کر
رہا ہے۔ کہ کیسا دن اور کیسی حالت میں جا رہا ہے
شاندار زندگی ،شاندار موت، شاندار روانگی۔۔۔۔۔ سوائے رشک کے اور کیا
ہو سکتا تھا
اس کو ہم سے بچھڑے ہوئے آج 4سال مکمل ہونے کو ہیں لیکن یوں
محسوس ہوتا ہے جیسے آج بھی وہ ہمارے درمیان زندہ ہے ۔
خوش نصیب تھا ۔خاتمہ اچھا ہوگیا۔ اپنوں کے کندھے ۔استاذ اور ہم عصروں
کی نگاہوں میں روانہ ہوا
لیکن ہمارے لئے اور اپنی برادری کے لیے ایک سبق چھوڑ گیا اور دنیا سے
تو چلا گیا لیکن اپنے لئے آخرت کی منزلیں آسان کرلی
======================================
اس کے اچانک داغ مفارقت پر چند دوستوں کی کچھ تاثرات شامل کیے
حارث شہزاد اٹک سے> بہت اچھا انسان تھا ہمارے ساتھ جو وقت بھی گزرا اللہ تعالیٰ اس کو
جنت الفردوس میں جگہ دے ۔۔۔الیاس سرحد سے> بہت اچھا تھا میرے ساتھ حفظ کا زمانہ گزارا دو دفعہ قرآن مجید بھی
سنایا اس کی جدائی وقت کا ہمارے لیے بڑا صدمہ ہے۔۔۔حیات سرحد سے> میرے ساتھ اس کے طویل عرصہ گزرا اور میرے
ساتھ ہمیشہ بھائیوں کی طرح رہنے والا تھا۔۔خرم چکوال> ایک پھول تھا جو جوبن سے قبل ہی مرجھا گیا ۔۔عمان سرگودھا >میرا ہر سفر تھا لیکن آگے سفر میں خیرباد
کہہ گیا ۔۔جابر برما سے >سنجیدگی متانت اس کی شخصیت میں عیاں تھی
عزیز سندھ> اعلی صفات کا حامل انسان ہم سے جدا ہو گیا محمد جعفر کاغان> بہت ہی اچھا انسان تھا اللہ تعالی اسکو
کروٹ کروٹ جنت کی خوشیاں نصیب کرے
اے ہمسفر میرے ہم نہیں بھولے تجھے $$$$$$$$$
ہماری یادوں کا سفر
طے بھی نہ ہوا
منزل کی دوری
اور تو بھی چل بسا
تیری آرزو میری حسرت رہی
تری جستجو میں کوشش بنی
وقت سے پہلے تو بکھر گیا
اے ہمسفر میرے ہم نہیں بھولے تجھے$$$$$$$$$$
سرشام مچلتے جوان
وہ موسم بہار
کھلتی کلیاں
کھلتے پھول
برسات کا موسم
ڈھلتیں شامیں
اے ہمسفر میرے ہم نہیں بھولے تجھے$$$$$$$$$$$ کوائل کی راگ وہاں سہانی رات
جس میں وہ احباب کی رفاقت
امیدوں کا چراغ
بکھرتے غم
سہانہ موسم
ٹھٹھرتی راتیں
جاڑے کا موسم
گرتی شبنم
لمحات ہرپل
یادیں تمہاری
اے ہمسفر میرے ہم نہیں بھولے تجھے$$$$$$$$
نہیں بھولے تجھے$$$$$$$$$$$$$
نہیں بھولے$$$$$$
ہماری دعا ھے اللہ مرحوم کو کروٹ کروٹ پر سکون عطاء کرے آمین
Thank you for visiting our website