google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 افغانستان میں حقوق نسواں کا واویلا

افغانستان میں حقوق نسواں کا واویلا

TMK News | اردو
0

افغانستان میں حقوق نسواں کا واویلا

جو نام نہاد حقوق نسواں کے رکھوالے  ہمیں خواتین کے حقوق بتاتے ہیں وہ  پہلے اپنے ملکوں میں خواتین کے حقوق کو پورا کریں۔ اگر عالمی برادری افغان خواتین  کے حقوق کے بارے میں جتنی  فکر مند ہے اس کا اگر ہزارواں حصہ بھی  کشمیر اور فلسطین کے بارے میں فکر مند ہوتی  تو دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ اگر عورت کو مادر پدر آزاد  معاشرے کے انداز میں کھلی چھٹی دی جائے اور اسے اپنا سامان بیچنے کے لیے ایک ماڈل اور شوروم کے طور پر پیش کیا جائے اور اس کے جسم کو  دفاتر ، کاروباری مراکز ، میڈیا ، فلمی صنعتوں کی پروموشن کیلئے بیچا جائے ۔ ، ڈراموں ، ٹی وی چینلز پر مردوں کی ہوس دیکھ کر کھربوں صنعتیں چلانا ، جنسی انڈسٹری میں عورتوں کو استعمال کر کے کھربوں کمانا کیا  نسوانی حقوق ہیں؟ پھر ان کے لیے افغانستان میں ایسی آزادی حاصل کرنا ناممکن ہے ، اسلام اور اسلامی معاشرے اوراسلامی  نظام نے خواتین کو جو حقوق اور عزت دی ہے ۔وہ کسی اوردھرم نے  نہیں دی۔اسلام نے  اسے کولہو کے بیل کے طور پر استعمال کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ، جیسا کہ آج یورپی معاشرے میں ہورہا ہے ، یورپ میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے ، ماں نہیں جانتی  کہ بچہ اس کے رحم میں بڑھ رہا ہے ۔ہمارا ملک پاکستان بھی مغربی ذہن کے دانشوروں ، صحافیوں ، حقوق نسواں اور عورتوں کا مارچ کرتا ہے اسلام عورت کو ماں کا درجہ دیتا ہے جو کہ کسی مذہب نے اسے نہیں دیا ، یعنی اس نے ماں کے قدموں تلے جنت بنا دی ، شوہر  کی جائیداد میں اس کی بیٹی کے لیے ایک حصہ اور دو حصے بیٹے کے لیے اور بیوی کو 1/8 دینے کا حکم دیا ، جبکہ اگر باپ اپنی زندگی کے دوران جائیداد اپنے وارثوں میں تقسیم کرتا ہے تو وہ اسے تمام بچوں میں برابر تقسیم کرے گا ، اور ہمارے نبی  کریم ﷺنے فرمایا کہ یہ کسی ایسے شخص کے لیے قابل قبول نہیں ہے جو اس کی ماں ، بہن یا بیٹی سے کوئی جائیداد وراثت میں نہیں لینا چاہیئے۔ آج اسلامی ممالک میں جہاں پاکستان سمیت یورپی باشندوں کی تقلید میں ان کی  تعلیم کو اپنایا جا رہا ہے ، نوجوان نسل کو تباہ کیا جارہا ہے  ۔ زنا  عام اور شادی کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔دنیا داروں سے تو گلہ نہیں ۔ بڑے نام نہاد مذہب کے ٹھیکدار اسلام کے بجائے علاقائی رواج کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان میں 51 فیصد خواتین اور 49 فیصد مرد آبادی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق دیہات وغیرہ میں  بھی شادیاں مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہیں ۔ایک تہائی عورتوں کے سروں میں چاندی اتر آئی ۔لیکن بے جا نخرے ،مادر پدر آزادی اور جہیز کی لعنت نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔  سسرال  والوں کی طرف سے بیس سالہ نوجوان سے  ان چیزوں کا مطالبہ جس کو خود بناتے ہوئے ان کی پانچ دہائیاں بیت گئیں۔ اور دوسری وجہ  لڑکیوں کو تعلیمی اداروں ، دفاتر ، ٹرانسپورٹ ، ٹرینوں ، پولیس ، فوج ، میڈیا وغیرہ میں آزادی دی گئی ہے ، یہی آزادی  بہت ساری پریشانیوں کا باعث بن رہی ہے ، شادی کرنا اور اچھے تعلقات رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے مرد وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی معمولی ، پردہ دار ، مرد و عورت کا رشتہ مخلوط طرز زندگی کے ساتھ ہو ۔جبکہ عورت کی خواہش ہے کہ وہ اپنی من مانی زندگی بسر کرے کوئی اس کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کی کوشش نہ کرے ۔جن عورتوں کے اس قسم کے جذبات ہیں ان کو ایک دفعہ یورپ کا چکر لگوا لینا چائیے تاکہ جو نام نہاد حقوق نسواں کے علمبردار بنے ہوئے ہیں ۔ان کا صنف نازک کے ساتھ سلوک یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور ان کے ہوش ٹھکانے آجائیں ۔

جبکہ غیر ملکی اور صیہونی پراپیگنڈہ کے جواب میں  افغان ترجمان ملا ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ "افغانستان کے مجاہدین نے لاکھوں فوجوں کے خلاف اپنے لاکھوں مسلمانوں کی قربانی دی ہے۔ امریکہ اور 28 نیٹو ممالک کے بیس سالوں کے لیے ، یورپی طاقتوں بشمول امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، کینیڈا ، آسٹریلیا وغیرہ کو چھوڑ کر انہیں افغانستان میں اپنے والدین کے آزاد معاشرے کو چلانے کے لیے دم گھٹنے پر مجبور نہیں کیا گیا ، وہ خواتین کو اجازت دے رہے ہیں اسلام کے دائرے میں کام اور مطالعہ کے لیے ، میں افغانستان کا وزیر اطلاعات ہوں۔ اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ اگر یورپی ، ہندوستان خواتین کے حقوق کا سچا چیمپئن ہے تو انہیں کشمیر ، فلسطین ، شام ، برما اور دیگر ممالک میں 1.3 بلین کی آبادی کے ساتھ خواتین پر ظلم بند کرنا چاہیے۔"

 کشمیر کے ملک بھارت کی طرف سے ہزاروں مسلم خواتین کے ریپ اور اغوا کے واقعات پر خواتین کے حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں خاموش کیوں ہیں؟ کیا وہاں حقوق نسواں کا اطلاق نہیں ہوتا ؟ ۔ان کو افغان خواتین کے حقوق کا مسئلہ نہیں ان کو اسلامی نظام ہضم نہیں ہورہا کیونکہ صہیونی طاقتوں کو یہ بات معلوم ہے کہ اگر اس اسلامی نظام نے ایک نسل بھی پاس کرلی تو پوری دنیا میں لوگ اس نظام کی حمایت میں کھڑے ہوجائیں گے ۔اور ان کی سیکولرازم ،کمیونزام  جیسے نظام اوندھے منہ گرجائیں گے۔یوں ان کے بنائے ہوئے نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی دنیا پر ان کی اجارا داری ختم ہوجائے گی ۔

Post a Comment

0Comments

Thank you for visiting our website

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !