google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 کیا ہم آزاد ہیں۔۔!

کیا ہم آزاد ہیں۔۔!

TMK News | اردو
0

ارض مملکت کا حصول جس مقصد کیلئے تھا آج سات دہائیاں گزرنے کے باوجود ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں ۔ جس کیلئے ہمارے اباء نے اپنے خاندان کے خاندان لٹائیے ،اپنے تن من اور عزت کو داؤ پر لگایا۔ اپنا سب کچھ قربان کیا اس مقصد کا حصول آج تک ہم سے نہ ہو سکا ۔ پہلے دن سے لیکر آج تک ہمارے اوپر ایک مخصوص طبقہ حکمرانی کررہا ہے ۔ اور یہ وہ طبقہ ہے جس نے اسن ملک کیلئے پسینہ تک بھی نہیں بہایا ۔ہم جسمانی طور پر آزاد ہیں لیکن ذہنی طور پر مکمل غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئیے ہیں ۔ ہمارے معیشت ،معاشرت ، حکومت ، مکمل طور پر ایک تیسری قوت کے زیر سایہ ہے ۔ عالمی استعماری طاقتیں ہمارے فیصلوں پر مکمل طور پر اثر انداز ہیں ۔ہمارا تمام ادارے ان زیر سایہ ہیں ان میں افراد کا چناؤ ان کی ایما کے مطابق ہوتا ہے اگر نہ بھی ہو لیکن چناؤ کے بعد ان کو مختلف قسم کا لالچ دے کر تگنی کا ناچ نچایا جاتا ہے ۔ اس کی مثالیں ابھی حال کی موجود ہیں ۔ایک شخص کے بارے میں مکمل طور پر معلومات ہونے کے باوجود بھی اس کو وزیر بنایا گیا لیکن جب عوامی دباؤ کو نہ سہہ سکے تو معطل کرنا پڑا ۔ لیکن اس کی معطلی پر کس کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہوئیں جو اس بات کی ہمارے حکمران جماعت کیلئے ایک وارننگ تھی کی اپنا قبلہ درست کرو ۔ کون سی چیز اس ملک میں کم ہے افرادی قوت ، مال و اسباب ، قدرتی ذخائر معدنیات۔۔۔۔۔ آخر کس مجبوری کے تحت ہم ان کے سامنے جھکے چلے جا رہے ہیں ۔ دعوی ہمارا اسلامی ریاست ہے لیکن تقلید ہم یورپی یونین کی کرنے جا رہے ہیں ۔ کیا اسلام معاشی نظام پیش کرنے سے عاجز ہے ؟ کیا اسلام تہذیب نہیں سکھاتا ؟ کیا اسلام ترقی سے روکتا ہے ؟ کیا اسلامی نظام کسی بھی اسلامی ریاست کو ہینڈل کرنے سے عاجز ہے؟ کیا اسلام کی روشنی میں ہم ایسا کوئی تعلیمی نظام تشکیل دینے سے قاصر ہیں جو ہمیں ترقی کی راہوں پر لا سکے ؟ آخر کس مجبوری کی وجہ سے ہم دوسروں کے تعلیمی نظام کو فالو کرنے پر بضد ہیں ؟؟؟ اہل یورپ کے پاس تو کوئی تعلیم نام کی کوئی چیز نہیں تھی وہ تو علم کے مخالف تھے ۔ تاریخ اٹھا کر دیکھو تو معلوم ہو گا کہ علم کس کے پاس تھا اور جہالت کس کے پاس تھی ۔ اسلامی نظام تعلیم نے بڑے نامور دانشور ،محقق ، ادیب ، سائنسدان اور فلاسفر پیدا کئے ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے معاشی نظام کو اپنانا ہوگا اس کیلئے ہمیں اپنے جامعات ، یونیورسٹی ، کالجز میں اپنے طلباء کیلئے اس سطح کا نصاب تشکیل دینا چاہیے جو بین الاقوامی معیار پر اترتا ہو ۔ ہماری پورے کا پورا سسٹم اسلام کے زیر اثر ہونا چاہیے ۔ جب ہم اسلام کی پیروی کے دعوی دار ہیں تو جب قوانین کے نفاذ کی بات آتی ہے تو اس وقت ہماری نظر غیر مسلم اقوام کے بنائے ہوئے قوانین پر کیوں جاتی ہے ۔ مدینے کی ریاست کیلئے ہمیں نبی کریم ﷺ کے اصحاب کی سیرت کو لاگو کرنا ہوگا ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے منصب خلافت سنبھالنے کے فورا بعد جو اہم کام کئے ان میں سے پہلا امت کے عقیدے کا تحفظ تھا ۔جس کیلئے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے مدعیان نبوت کے خلاف لشکر کشی کی ۔دوسرا جو فوری اقدام تھا وہ منکرین زکوٰۃ کے خلاف اعلان جنگ تھا ۔ ان حالات کو دیکھ کر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ جیسے جنگجو نے بھی امیر الم ؤمنین کو نرمی برتنے کا مشورہ دیا ۔جس کو سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سخت طیش میں آکر فرمایا ۔ میں ان سے اس وقت تک لڑتا رہوں گا جب تک یہ وہ رسی دینا شروع کردیں جو نبی کریمﷺ کے دور میں زکوٰۃ کے ساتھ دیتے تھے ، "دین میں نقص آجائے اور ابوبکر زندہ ہو یہ نہیں ہو سکتا ، واللہ اور ابھی دینا بند کردی ۔ یعنی احکام دین کی حفاطت کا بیڑا اٹھایا اور اس کیلئے اپنے تمام حکومتی مشنری کو استعمال کیا ۔تیسرا سب سے اہم کام حفاظت قرآن مجید کا ۔ جنگ یمامہ میں بہت سے حفاظ کرام کے شہید ہونے پر اس معاملے پر جب توجہ دلائے گئی تو فوری طور پر ایک کمیٹی مقرر کر کے ان کیلئے ایک معیار بنایا کہ اس کے مطابق قرآن مجید کو اکٹھا کرو اس لئے ایک اسلامی ریاست پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتیں ہیں صرف یہ نہیں کہ وہ لوگوں پر ٹیکس لگائے بلکہ ہر طرح کا تحفظ فراہم کرے ۔ اس لئے ریاستی نظم کے ساتھ ریاست مدینہ تشکیل دینے کیلئے اسباب کو اختیار کرنا ضروری ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج پون صدی گزرنے کے باوجود اس مقصد کو حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہے ہیں جس کیلئے اس کو بنایا گیا تھا۔ ہماری نسل فعلا اپنے اباء کی قربانیوں پر زباں حال سے یہ کہتی ہوئی نظر آتی ہے کہ تم تو اپنی جانیں لٹا بیٹھے لیکن ہمیں سمجھ نہ آیا کہ یہ وطن کیوں حاصل کیا تھا ۔ سال کے بعد ایک دن یوم آزادی کے نام پر غل غپاڑہ کر لینے سے ہم کبھی بھی دستبردار نہیں ہوں گے اس کیلئے ہمیں اس پیغام و مقصود کو سمجھنا ہو گا جس کیلئے اتنا کچھ کھو کر یہ وطن ہم نے حاصل کیا ۔ہم سرحدوں میں ہونے کے باوجود محفوظ نہیں جس کا جب جی چاہے کسی کو مار کر چند ڈالر پھینک کر چلا جائے ۔ جب ایک اسلامی ریاست کا تصور ہوگا تو ایک غیرت و ایمانی حمیت ہوگی ہر شہری کے حقوق ہوں گے ۔ کسی غیر اقوام کو درمیان میں آنے کی ضرورت نہیں ۔ شروع سے آج تک ایک مخصوص اشرافیہ ہمارے اوپر مسلط رہی ۔ ایک ایسی ریاست جس میں نہ دین محفوظ نہ دیندار محفوظ ، نہ قرآ ن محفوظ نہ اہل قرآن محفوظ ، جس میں غیر ملکی سفارت خانوں رکھے ہوئے گملے اس ملک کے باسیوں سے زیادہ قیمتی ہوں ان کو بچانے کیلئے اپنی عوام پر سیدھے فائر کھول کر ان کو خاک و خون میں نہلا دیا جائے یہ سب آزادی ہے یا غلامی لہذا ہمیں اپنی ماضی کی روش کو ترک کرکے مکمل اسلامی نطام کا نفاذ کرنا ہوگا اس میں ہی ہماری بقا کا راز مضمر ہے

Tags

Post a Comment

0Comments

Thank you for visiting our website

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !