پردیس میں دیس۔۔!
وَلَقَدْ
أَهْلَكْنَا أَشْيَاعَكُمْ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ﴿٥١﴾ وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوهُ
فِي الزُّبُرِ ﴿٥٢﴾ وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُّسْتَطَرٌ ﴿٥٣﴾" پورے ہال
میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔مجمع ایک عجیب کیفیت سے دوچار تھا۔سناٹا ایسا کہ سوئی گرے
تو آواز آئے۔دفعتا سٹیج پر نظر پڑی تو دیکھا کہ ایک فرشتہ صفت انسان روشن
چہرے،نحیف بدن،سفید ریش اور ایک جاندار آواز کے ساتھ مندرجہ بالا آیات تلاوت کررہا
ہے۔استفسار پر معلوم ہوا ،کہ یہ استاذالقراء قاری احمد میاں تھانوی صاحب ہیں۔جو اس
ضعیف عمری کے باوجود آج بھی اسی پرسوز آواز کے مالک ہیں جو کسی نوجوان قاری میں
بھی نہیں نظر آتی۔یہ دیکھ کر مجھے استاد محترم مشہور مدبر مفکر اسلام مولانا زاہد
الراشدی صاحب کا وہ جملہ یاد آیا۔جو اکثر بخاری شریف کے درس میں فرمایا کرتے کہ
مزاج صحابہ اختلاف امت کا سبب بنا اور الحمد لللہ علمائے دیوبند کو یہ اعزاز حاصل
ہے کہ وہ ہر شعبے میں ہراول دستے کا کردار ادا کررہے ہیں ۔چاہیئے سیاسی ہو سماجی
ہو تعلیمی ہو یا عسکری ہو۔
سالانہ پروگرام بسلسلہ تکمیل بخاری شریف جامعہ فتحیہ
مادر
علمی جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں تکمیل بخاری شریف کی چوتھی سالانہ تقریب کا
انعقاد تھا ۔حضرت قاری صاحب کی تلاوت کے بعد منتظم وفاق المدارس العربیہ پاکستان
مولنا قاری حنیف جالندھری صاحب نے درس حدیث دیا ۔جس میں طلباء کو وعظ نصیحت کے
ساتھ حکومتی وفد کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کو بھی عوام کے سامنے رکھا۔اور بتایا
کہ کتنے گھٹن حالات میں اور کتنا رسک لیکر مدارس کے تعلیمی نظام کو جاری رکھا گیا۔انہوں
کہا کہ مدارس دینیہ اسلام کے قلعے ہیں انہی کی وجہ سے پاکستان کی نظریاتی سرحدی
محفوظ ہیں کیونکہ اس ملک کی اساس اسلام کی نظریئے پر قائم ہے۔مادر وطن کی ترقی اور
خوشحالی میں دینی مدارس کا ایک کردار ہے جس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔درس کے بعد
فضلاء کو دستار اور پوزیشن ہولڈر میں انعامات و اسناد تقسیم کیں ۔پروگرام میں قدیم
فضلاء کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اوکاڑہ
روانگی
باجوڑ روانگی
یہ سفرنامہ مختلف اخبارات کی زینت بنا |
اب منصوبے کے مطابق اگلی منزل باجوڑ ایجنسی تھی ۔رات 9:30 پر لاہور
سے گاڑی نے روانہ ہونا تھا۔وقت روانگی سے دس منٹ قبل ٹرمینل پرپہنچ گئے۔ حلقہ
احباب کی وجہ سے کسی بھی علاقے میں سفر سے قبل گاڑیوں کے وقت روانگی سے لیکر سیٹ
کنفرم ہونے تک تمام مراحل بآسانی طے ہوجاتے ہیں۔یہاں بھی زیادہ رش ہونے کو باوجود
اپنے رابطہ کار کے وجہ ایک اچھی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔دس منٹ کی تاخیر
سے گاڑی روانہ ہوگئی۔بہت زیادہ بھیڑ کی وجہ شہر لاہور سے نکلتے نکلتے کافی دیر
ہوگئی۔جب گاڑی راوی ٹول پلازے پر پہنچی تو گھنٹے والی سوئی گیارہ والے ہندسے کو
چھو رہی تھی۔گاڑی میں مکمل ہو کا عالم تھا ۔میرا اس روٹ پر سفر کا پہلا تجربہ
تھا۔رات کافی بھیگ چکی تھی لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔نشست کو دراز کرکے
پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موندھ لیں خیالات واقعات کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے
نے آگھیرا۔ماضی کے اوراق کنگالنے شروع کردیئے ۔ٹانک ،ابا خیل ،جندولہ ،کوٹکائی
،وانا،رزمک ،وادی شوال۔یہ وہ علاقہ جات تھے جن کو چند سال قبل ڈیرہ اسماعیل خان سے
ایک ساتھی کی دعوت پر سر کرچکے تھے ایک ایک علاقے کے حالات و واقعات ذہن میں کسی
فلمائے گئے مناظر کی طرح چل رہے تھے۔ ۔وادی شوال کو اگر جنت کا ٹکڑا کہوں تو بے جا
نہ ہوگاگویا پہاڑوں نے سبز مخمل کی چادریں اوڑھ رکھیں ہیں ۔ہر طرف چشمہ سے بہتا
صفاف شفاف موتی کی طرح سفید پانی ۔مری تو اس کا عشر عشیر بھی نہ تھا ۔وادی شوال کے
ساتھ افغان کا باڈر تھا وہاں سے 250 کلومیٹر کی دوری پر افغانستان کا مشہور اور
تاریخی شہر غزنی جلوہ گر تھا جو اپنے اندر ایک علیحدہ تاریخ سموئے ہوئے تھا۔ہاں یہ
وہ سرحدی علاقہ جات تھے جن میں آتش آہن کا کھیل جاری تھا۔ بیرونی ایجنسیوں کی
آماجگاہ اور وطن عزیز کے خلاف یہ سازشوں کا گڑھ بن چکا تھا ۔پورے ملک میں ایک خوف
کی کیفیت تھی ۔پھر ارض وطن کے وہ جانباز اٹھے اور ان کے مصموم ارادوں کو خاک میں
ملا دیا ۔یہ دنیا کا مشکل ترین کلین آپریشن تھا ۔کیونکہ اس میں دشمن کی کوئی واضح
نہ شکل تھی نہ سمت تھی نہ آماجگاہ تھیں ۔کسی وقت کہیں بھی کوئی تباہی مچا سکتا
تھا۔لیکن ارض وطن کے پاسبانوں نے وہ تاریخ رقم کی کہ جس کو مؤرخ ہمیشہ اپنے اوراق
میں سنہری حروف سے قلم بند کرے گا ۔ اکیسویں صدی کے دوسرے عشرہ جب نصف سے اوپر ہوا
تو اس علاقہ میں مسکراہٹیں اور بہاریں لوٹ آئیں تھیں ۔ اس علاقہ کو ہم اپنے مخصوص
اصطلاح میں ریاضی کے ہندسے "پچیس"سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یہ علاقہ شمالی
وزیرستان اور جنوبی وزیر ستان سمیت باجوڑ ایجنسی، کرم ایجنسی ،مہمند ایجنسی ،اور
کزئی ایجنسی اور خیبر ایجنسی پر مشتمل ہے ۔
باجوڑ ایجنسی :
موخر
الذکر پانچ ایجنسیوں میں یہ واحد ایجنسی تھی جس میں ہم قدم رکھنے لگے تھے کیونکہ
شمالی اور جنوبی وزیرستان کا اکثر علاقہ دیکھ چکے تھے لیکن ایجنسیوں میں کبھی آنے
کا اتفاق نہیں ہوا ۔حالانکہ پچھلے چارپانچ سالوں سے احباب کا شدید اصرار تھا لیکن
مشغولیت کی وجہ سے وقت نہ نکال سکے ۔اس دفعہ چند ہفتے قبل ہمارے دو عزیز بردار
مکرم مولانا زید فاروقی صاحب اور مولانا تاج ربانی صاحب کی طرف سے دعوت نامہ موصول
ہوا جس میں انکے تعلیمی سلسلے کے آخری سال کی تقریب میں شرکت کی دعوت تھی ۔انکار
کی گنجائش کہاں ہوتی اس لئے مقررہ دن سے دو دن قبل ہی رخت سفر باندھا ۔تاکہ علاقے
جغرافیائی خدوخال کا فزیکلی مطالعہ بھی کرلیا جائے۔ باجوڑ خیبر پختونخوا کا ایک
ضلع ہے۔ جو سات تحصیلوں پر مشتمل ہیں۔ جن میں تحصیل خار، ناواگئی، چمرکنڈ، ماموند،
سالارزئی، اتمان خیل اور برنگ شامل ہیں۔ہمارا قیام تحصیل خار کے ایک مشہور و معروف
تجارتی شہر عنائیت کلے
میں تھا ۔اگر قبیلوں کی بات کی جائے تو اول الذکر پانچ تحصیلوں میں ترکانڑی قبائل
(کاکازئی، وڑو، سالارزئی) جبکہ برنگ میں اتمان خیل قبائل آباد ہے۔ باجوڑ کا
ہیڈکوارٹر خار میں واقع ہے۔اگر M-16پر
سفر کیاجائے تو تیمرگرہ سے عنائیت کلے کے راستے میں تحصیل خار واقع ہے۔گویا یہاں
تک پہنچنے کے دو راستے ہیں ۔مردان تک ایک ہی روٹ ہے مردان کے بعد ایک راستہ چکدرہ
، تیمرہ گرہ سے ہوکر جاتا ہے دوسرا مردان سے چارسدہ پھر غلانائی سے ہوتے ہوئے
عنائیت کلے پہنچتا ہے ۔پبلک ٹرانسپورٹ زیادہ تر چارسدہ کے راستے سے جاتی ہے جس کے
راستے میں مشہور ٹنل بھی آتا ہے ۔ٹنل کراس کیا تو صبح کی روشنی پھیلنا شروع ہوئی۔
گاڑی پہاڑی علاقے میں جانب منزل رواں تھی۔ایک پہاڑی کے پاس توقف کیا۔یہ مہمند
ایجنسی کا علاقہ تھا کیونکہ اس روٹ پر جانے والی ہر گاڑی کو مہمند ایجنسی سے ہوکر
گزرنا پڑتا ہے۔یہاں مسافروں نےنماز فجر ادا کی اور دوبارہ سفر شروع کیا ۔ایک گھنٹے
کی مسافت کے بعد باجوڑایجنسی کا علاقہ شروع ہوگیا ۔ یہ آخری علاقہ تھا اس سے آگے
پہاڑوں کے دوسری طرف شمال میں افغانستان کا صوبہ کنڑ واقع ہے جو اتحادی افواج کو
تاقیامت نہیں بھولے گا۔
اختتام سفر
ایک
گھنٹے کی مسافت طے کرنے بعد منزل آگئی۔ جگہ کا نام پھاٹک تھا۔ نیچے اترےتو محترم تاج
صاحب استقبال کیلئے موجود تھے ۔ چونکہ کسی جگہ پہنچے کی اطلاع بہت ہی محدود رکھتے
ہیں اس لئے اکثر احباب ہماری اس اچانک آمد سے بے خبر تھے ۔استفسار پر پر معلوم ہوا
کہ مدرسہ مدینۃ العلم چند گز کے فاصلے پر ہے ۔طعام و آرام سے پہلے مدرسہ کا دورہ
کرنے فیصلہ کیا۔مسلسل 16 گھنٹے سفرکے باوجود تھکان نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی
۔مدرسہ کی نئی تعمیرات کا جائزہ لیا ۔یہ ایک بڑا منصوبہ تھا جس پر تقریبا پانچ
کروڑ روپے کی لاگت آنی تھی اور یہ سب اخراجات اللہ کے فضل اور عوام کے بھرپور
تعاون سے پورے ہورہے تھے ۔پھر قدیم عمارت کا جائزہ لیا جس میں رہائشی کمرے دفاتر
کلاسز وغیرہ کا تفصیلی وزٹ کیا ۔چند ایک اساتذہ سے بھی ملاقات ہوئی ۔اور طلباء سے
بھی قیام طعام نظم الاوقات کے بارے میں مختصر انٹرویو لئے۔مدرسہ کے کل طلباء کی
تعدادتقریباچھ سو سے متجاوز ہے اور جس میں رہائش پذیر طلباء کی تعداد ساڑھے تین سو
کے لگ بھگ ہے۔اس سال فارغ التحصیل ہونے طلباء 28 تھے ۔مختصر دورے کے بعد عنائیت
کلے بازار میں موجود ایک مشہور ہوٹل پر ناشتہ کرنےکا پلان بنا۔سو مقررہ ہوٹل پر
پہنچے تو ہمارے دوسرے میزبان جن کے پرزور اسرار پر سارا سفر ترتیب دیا گیا تھا
برادرمکرم مولانا زید فاروقی صاحب موجود تھے۔سو مقامی روایات کے مطابق ناشتہ کیا
جس میں چنے ،پائے اور سبز قہوہ شامل تھا۔ ۔دوران ناشتہ سفر کی ساری تفصیلات پر ان
کو بریف کیا۔پھر آئندہ تین دنوں کا مکمل شیڈول مرتب کیا گیا جس میں قیام طعام اور
سیروسیاحت کے وقت کو منظم طریقے سے ترتیب دیا گیا تاکہ کوئی وقت ضائع کئے بغیر
زیادہ سے زیادہ "کوریج"کی جاسکے۔
سیر و سیاحت
دو گھنٹے آرام کے بعد نہا دھوکر کھانا کھایا نماز ظہر ادا کی کی اور اگلے مشن کیلئے مکمل تیار ۔اب یہاں سے دو راستے نکل رہے تھے ایک عنائیت کلے بائی پاس سے سیدھا غاخ پاس۔ اور دوسرا عنائیت کلے شہر سے ناوا پاس تک۔ یہ دو راستے ہیں جو باجوڑ کو افغانستان سے ملاتے ییں, باجوڑ کے مشرق میں ضلع دیر واقع ہے اور جنوب میں مہمند کا علاقہ ہے۔ہم خالوزئے سے کٹکوٹ وہاں سے توحید آباد جہاں مشہور عالم دین شیخ عبدالجبار صاحب کا مدرسہ تھا اس کا تفصیلی معائنہ کیا وہاں طلباء سے ملے حال احوال لیا اوربرخلوزو اور کاگاسے ہوتے ہوئے غاغ بائی پاس پر پہنچ گئے ۔دوران معائنہ بہت ساری چیزیں نوٹ کیں ۔ایک تو وہاں سکول،مدرسہ اور یمفتٰ رضوان صاحب کے بقول یاجوج ماجوج کی اتنی کثرت تھی جن کا شمار ناممکن تھا۔دوسری چیز وہاں پر پہاڑی علاقہ ہونے کے باوجود کہیں پر بھی کوئی ریوڑ نظر نہیں آیا ۔گویا گلہ بانہ کا پیشہ انتہائی محدود تھا ۔جس کے پاس تھا بھی تو وہ چاردیواری کے اندر تھا۔وہ بھی اگر دیواروں پر "ٹائیلوں"کا کام نہ ہوا ہوتا تو شائد اس بات کا اندازہ کرنا مشکل ہوجاتا کہ علاقہ میں پالتو جانور بھی ہیں یانہیں ۔ عشائیہ کا انتظام محترم زید فاروقی صاحب کے پاس تھا ۔ان علاقوں کی مکمل جانچ پڑتا ل کے تھوڑا تازہ دم ہونے کیلئے چشموں کا رخ کیا ۔لیکن وہاں پہنچ کر اندازہ ہوا کہ بڑھتی ہوئی اور آبادی اور ماربل کی صنعت آنے والے چند سالوں میں ان چشموں کو نالہ لئی میں بدل دے گی ۔بدقسمتی سے قدرتی طور پر صاف شفاف پانی کے نالے ہماری نام نہاد ترقی کا شکار ہوکرکسی سیوریج لائن کا روپ دھار لیتے ہیں ۔گویا قدرتی حسن کو ہم اپنے ہاتھوں سے تباہ کرتے ہیں ۔یہاں بھی کچھ ایسا منظر دکھائی دیا ۔نصف سے زائد چشمے خشک ہوچکے تھے ۔اور جو باقی تھے وہ بھی آخری ہچکولے کھارہے تھے۔کوئی نصف گھنٹہ چہل قدمی کے بعدطے شدہ منصوبہ کے مطابق اگلی منزل سلارزو گنگ کا رخ کیا۔
جہاں محترم زید فاروقی صاحب ودیگر احباب نے استقبال کیا ۔رسمی علیک سلیک کے بعد محفل سجی اس دوران کھانے کیلئے دسترخوان بچھائے گئے ۔جس پر ہر قسم کے سرحدی پکوان چنے گئے جس میں فل فرائی مچھلی ،بلیک کباب(مقامی نام کاپتہ نہیں یہ نام خود ایجاد کیا )،مرغی ،چھوٹے بڑے گوشت پر مشتمل ڈشز ، مکس سبزی اور فروٹ سرفہرست تھے۔اس کے بعد علاقائی روایات کے مطابق شوگر فری قہوے کا دور چلا۔یہ سارا منظر دیکھ کر میں نے اپنی G_Kبک میں ایک فقرہ بطور تبصرے کے کچھ یوں لکھا"پشتون صرف کھانے کے نہیں بلکہ کھلانے کے بھی ماہر ہیں "دوران طعام مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوتا رہا۔جس میں سیاسی سماجی اور عسکری امور زیر بحث رہے۔عصر کے بعد ہی پنجاب سے آنے والے علماء کرام کے خصوصی وفد کے روانگی کی اطلاع مل چکی تھی ۔تو وہیں اس وفد کے روٹ ،حفاظتی انتظامات،قیام طعام کے بارے بات چیت چلتی رہی۔کیونکہ ہم اس وفد میں شریک علماء کرام کی سیکورٹی کے معاملات پر کسی قسم کا رسک لینے کو تیار نہ تھے۔ اس لئے تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لینے اور تمام معاملات کو باریک بینی سے دیکھنے کے بعد انتظامات کو حتمی شکل دی گئی ۔قافلے میں بانی ومہتمم مدرسہ سیدنا ابوہریرہ خطیب و امام جامعہ مسجد قبا استاذ العلماء حضرت مولانا قاری مفتی محمد عبدالبصیر صاحب حفظہ اللہ تعالی،نگران شعبہ تحفیظ القرآن حضرت مولانا قاری نذیر گورمانی صاحب ،نگران شعبہ خارجی امورحضرت مولنا مفتی رضوان صاحب ،نگران شعبہ داخلی امورحضرت مولنا عبدالرحمان صدیقی صاحب اورنگران شعبہ تعلقات عامہ و شعبہ نشرواشاعت حضرت مولنا عدنان عمر صاحب شریک تھے ۔قافلے کی کمان مولانا عبید صدیقی صاحب جبکہ نیویگیٹر کے فرائض مولنا عدنان عمر صاحب اور ڈرائیونگ سیٹ پر مولنا مفتی رضوان صاحب برجمان تھے ۔یوں مقدار میں کم اور معیار میں اعلی افراد پر مشتمل یہ قافلہ رات کے پہلے پہر سرحدی علاقہ میں داخلہ ہوا ۔میزبان حضرات نے منصوبے کے مطابق ان کو ریسیو کیا اور بحفاظت پہلی منزل پر پہنچا دیا۔جلسہ دستار فضیلت و تکمیل بخاری شریف
رات
آرام کے بعد اگلی صبح کو شیڈول کے مطابق منعقد تقریب میں شرکت کی ۔ تقریب میں ہم
تقریبا شروع سے آخر تک شریک رہے جس میں مقامی علماء کرام کی ایک بڑی تعداد نے خطاب
مقامی افراد کیلئے ہی کیا کیونکہ پشتومیں تھا۔آخر میں استاذالحدیث مولنا افتخار
احمد اعظمی صاحب (استاذ الحدیث جامعہ دارالعلوم کراچی) نے درس حدیث دیا اور اپنے
ہاتھوں سے فضلاء کرام کو دستار فضیلت پہنا کر دعا کرائی ۔پھر مبارک بادوں کا سلسلہ
چل نکلا۔ ہم نے بھی کافی تگ ودود کے بعد فاضل نوجوان محترم زید فاروقی صاحب(محترم
مولنا محمد زید فاروقی صاحب کا نام مدرسہ سیدنا ابوہریرہ کے ان فضلاء کی درجہ بندی
میں سرفہرست ہیں جنہوں نے نورانی قاعدے کی "الف" سے لیکر درجہ مشکوۃ تک
لگاتار ایک ہی درس گاہ میں پڑا۔اور آج بخاری شریف کی "ی"پر تکمیل کی
۔مجھے مدرسہ انتظامیہ اور عملہ سے پوری امید ہے کہ انہوں نے اس ہونہار طالبعلم
کیلئے اس خوشی کے موقع پر ضرور کسی سرپرائز کا اعلان کیا ہوگا ۔ موصوف نے سختیوں
پریشانیوں اور نامساعد حالات کے باوجود اپنے سفر کو جاری وساری رکھا اور آج منزل
پر پہنچ گئے۔ ان کی کامیابی و کامرانی کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے ۔کیونکہ اگر
طالبعلم حوصلہ وہمت ہار جائے تو لاکھ وعظ ونصیحتیں بھی بے اثر ہوتیں ہیں۔اس کی ان
گنت زندہ مثالیں ہمارے معاشرے میں اس قول پر شاہد ہیں۔) اور محترم تاج صاحب کو
ڈھونڈنے کے بعد پھولوں کے ہار پہنائے اورپرمسرت موقع کی مبارک باد دی ۔ان پرمسرت
لمحات کو صحیح معنوں میں وہی محسوس کرسکتا ہے جو اس سفر سے گزر کر اس منزل پر
پہنچا ہو۔ہر فاضل خوشی اور غم کی ملی جلی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔اس موقع پر مجھے
اپنے مادرعلمی کے ان ایام کی یاد ستانے لگی جب آخری دن تھا ۔بعد از نماز ظہر ہمارے
سروں پر بھی دستار فضیلت سجانی تھی۔صبح نماز کے فورا بعد روزانہ کے معمول کی طرح
استاد محترم نے کلاس میں بلایا ۔آخری سبق پڑھانے کے بعد وعظ نصیحت کرنے لگے۔ان کا
ایک ایک لفظ بجلی بن کر گر رہا تھا ۔مجھ جیسا مضبوط اعصاب کا مالک بھی اپنے آنسو
پر قابو نہ رکھ سکا۔غم کے پہاڑ ٹوٹے لیکن حوصلہ نہیں ٹوٹا ہوش حواس برقرار
رکھے۔لیکن آج ساری تربیتیں اور ترکیبیں ناکام ہوگئیں تھیں۔ ۔بیٹا میں نے ۔۔اگر
تمہارا وقت کوئی ضائع کیا مجھے معاف کرنا۔۔۔بیٹا ۔اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوگی ۔۔تو
اس کا بدلہ لینا ہے لے لو میری کمر حاضر ہے جرمانہ لینا ہے لے لو ۔۔لیکن قیامت میں
سوال نہ کرنا ۔۔بیٹا تم سب کو میں نے اپنی اولاد کی طرح رکھا اور آج تمہیں رخصت
کررہا ہوں۔میری نصیحتوں کو یاد رکھنا۔۔معاشرے میں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہوگا
۔۔صبر کا دامن نہ چھوڑنا ۔۔جہاں تک ممکن ہواس لائن سے جڑے رہنا۔۔اپنے لہجے میں
نرمی پیدا کرنا ۔۔مؤقف میں لچک نہ ہو لیکن لہجہ جتنا نرم ہوسکے اختیار کرنا۔۔فرائض
سے کوتاہی نہ کرنا ۔۔باجماعت نماز۔۔تلاوت کا معمول ۔درس قرآن کی ترتیب ان کو اپنی
زندگی کا لازمی جزو بنانا ۔۔باقاعدگی سے مطالعہ کرنا ۔۔۔ استاد جی کے آخری الفاظ
کی گونج مجھے اپنے کانوں میں سنائی دینے رہی تھی۔میں نہ جانے کتنی دیر سوچوں کے دھارے
میں بہتا رہا ۔گردو نواح کی کوئی خبر نہیں کیا ہورہا ہے۔"امیر صاحب چلو گاڑی
میں بیٹھو "عقب سے آنے والی پختون لہجے میں آواز نے چونکا دیا ۔
محترم تاج صاحب کا کوئی عزیز گاڑی لیکر پہنچ چکا تھا۔تقریب سے فارغ
ہوکراگلی منزل محترم تاج صاحب کامہمان خانہ تھا ۔مدرسے سے مہمان خانے تک سفر کیلئے
ان کے مکمل وی آئی پی انتظامات تھے ۔نماز ظہر کے بعد ظہرانے پر ہاتھ صاف کئے ۔جو
ہر قسم کے روائیتی کھانوں پر مشتمل تھا ۔نمازیں تو خیر ہماری "قصر "تھیں
لیکن دسترخوان پر ہم نے کوئی" کسر "نہیں چھوڑی ۔یہاں بھی ہر قسم کے
اشیاء خوردونوش علاقائی روایات کے مطابق اور معیار ومقدار دونوں میں اعلی تھیں ۔سب
کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہورہا تھا ۔لیکن درمیان میں ہمارے ایک بہت ہی دلعزیز
اور بزرگ شخصیت محترم سرفراز صاحب(گلفرازصاحب) نے درمیان میں اپنا
"ک+ٹ+ا"کھول دیا ۔سو" عرفت ربی بفسخ العزائم"۔وہ اس بات پر
بضد ہوگئے کہ شام کا کھانا ہر صورت میں ہمارے پاس کھانا ہے اور میں اس کے مکمل
انتظامات کرچکا ہوں ۔اور اس بات کا اعلان انہوں نے ادھر کھانے کے دوران ہی کردیا
اور انکار کی صورت میں خطرناک نتائج کی دھمکی بھی لگا دی۔اب طوعا و کرھا والی صورت
بن گئی کہ قبول کرنا پڑے گا چاہئے خوشی سے کرتے ہو یا ناخوشی سے۔خیر ہم نے بھی
اکابرین کے فیصلے پر سر تسلیم خم کرلیا۔ اب یہ مہمانوں کو درمیان میں ہائی جیک
کرنے کی کوشش تھی جو مجھے بہت ناگوار گزری ۔لیکن ادھر اس کا اظہار کرنا اپنے آپ کو
نئی مصیبت میں ڈالنے کے مترادف تھا ۔لہذا ناگوار صاحب کو سنبھال کر رکھا۔ دعوت
قبول کرنے میں ہی عافیت جانی۔سہ پہر کے تین بج رہے تھے حضرت مفتی صاحب اور عدنان
صاحب قیلولے کی نیت کرکے محو خواب ہوگئے۔مفتی رضوان صاحب نے مقامی آدمی سے گاڑی لی
اور کسی پرفضا اور ہجوم سے دور کسی مقام تفریح کی تلاش کو نکل پڑے ۔مقامی آدمی نے
ایک جگہ کا انتخاب کیا کہ اگر وہاں آپ چلیں تو بہت اچھی جگہ ہے چشمے بھی ہیں اور
پہاڑ کے بلکل اوپر ہونے کی وجہ سے پرسکون اور شہری آبادی سے ہٹ کر ہے۔سو یہ کارواں
عنائت کلے کے مضافاتی علاقے سے ہوتا ہوا اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا ۔یہ قافلہ
مولنا قاری نذیر گورمانی صاحب (جنہوں نے نصف مسافت طے کرنے کے بعد قیام کو کوچ پر
ترجیح دی )، اس کے علاوہ ان کے شاگرد خاص محمد یوسف صاحب عرف حضرت جی(ترجمان)مولنا
تاج صاحب(گائیڈ)،مولنا عبید صاحب(نیویگیٹر)،مولنا رضوان صاحب (ڈرائیور)اور راقم
الحروف پر مشتمل تھا ۔ایک منزل تھی جو آنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔ جگہ جگہ
ترقیاتی کام جاری تھا۔راستے میں جس سے بھی مذکورہ مقام کا پتہ پوچھتے وہ پشتو میں
کچھ جواب دیتا جس میں سے صرف ایک لفظ "لس منٹ" ہی مجھے سمجھ آتا لیکن وہ
لس منٹ ختم ہونے کا نام ہی نہیں رہے تھے ۔بلآخر بڑی تگ و دود کے بعد ہم منزل تلاش
کرنےمیں کامیاب ہوگئے ۔اب ہم ان پہاڑوں کے اوپر سانسیں لے رہے تھے جن کے دوسری سمت
افغانستان کا علاقہ تھا گو افغانستان اور پاکستان کی باڈر لائن پر تھے ۔وہاں سے
پورا باجوڑ کا علاقہ ایک پیالے کی طرح دکھائی دے رہا تھا ۔جس کے چاروں طرف پہاڑ
تھے ۔اس جگہ پر ایک چشمہ بہہ رہا تھا سب ادھر سے پانی پیا ۔جبکہ مولنا رضوان صاحب
نے ایک ایسے چشمے کا پانی پیا ان کے بقول ان کی ساری جسمانی روحانی امراض کو جڑ سے
کاٹ ڈالا ۔لیکن اس راز کو انہوں نے راز ہی رہنے دیا وہاں سے واپسی تک کسی کو بھی
اس کے ظرف زماں مکاں کے بارے میں مطلع نہیں کیا۔ وقت کی کمی کے باعث وہاں زیادہ
رکنا مناسب نہیں سمجھا۔اور واپسی کی راہ لی۔واپس پہنچ کر نماز مغرب ادا کی اور پھر
گلفراز صاحب کے ڈیرے پر پہنچے اور عشائیے کا ستیا ناس کیا ۔
واپسی
کی تیاریاں
ھذا
فراق بینی وبینک۔ الوداعی ملاقات کے بعد اساتذہ کرام کے قافلے نے واپسی کیلئے رخت
سفر باندھا ان کا اگلا قیام پشاور تھا جہاں رات بارہ بجے پہنچے رات قیام کے بعد
موصول شدہ اطلاعات کے مطابق اگلی صبح 5:30 بجے پشاور کو الوداع کہہ گئے۔ طے شدہ
پلان کے مطابق میرا ایک دن مزید قیام تھا ۔اگلی صبح نماز فجر کے بعد محترم زید
فاروقی صاحب کی میزبانی تھی ۔پھر وہاں مجلس"گپ شپ" سجی۔جس میں مولنا کے
بھائی صدام حسین ،احسان اللہ ،سلیمان اور والد صاحب بھی شریک محفل رہے ۔سورج کافی
اوپر آچکا تھا اس لئے تھوڑا گھومنے کا سوچا تو ہمارا اگلا مشن کنگ سلازو، نازاکئے،
ڈمہ ڈولہ اور پشت کے علاقے تھے ۔سو مختصرا ان علاقوں کا معائنہ کیا۔لیکن اب تاج
صاحب کے بجائے محترم زید فاروقی صاحب گائیڈ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ انہوں
نےدوران سفر اس علاقےکی سماجی زندگی ، معاشرت،ثقافت،تہذیب اور رسم رواج کے متعلق
تفصیلی بریفنگ دی ۔گھڑی پر نظر پڑی تو دونوں سوئیاں 12 کے ہندسے پر قبضہ جمائے
بیٹھی تھیں جن کو دیکھ بڑی حیرت ہوئی ۔وقت تیزی سے نکل رہا تھا ۔دن کے کھانے کا
وقت اور اہتمام دونوں ہوچکے تھے سو دسترخوان کی طرف چل پڑے۔ظہرانے میں فرمائشی
پائے کھا کر لاہور کی یاد تازہ ہوگئی ۔
الوداعی
ملاقاتیں
یہ
الوداعی دعوت تھی۔ساٹھ گھنٹوں کا وقت ساٹھ منٹوں کی طرح بیت چکا تھا ۔جوں جوں
واپسی کا وقت قریب آرہا تھا دل کی اداسی بڑھتی جارہی تھی۔ان لوگوں کی محبت اور
مہمان نوازی مدتوں یاد رہے گے ۔مجھے آئے ہوئے آج تیسرا دن تھا لیکن ایک لمحہ کو
بھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ دیس میں ہوں یا دیار غیر میں۔
واپسی
سفر
احباب
نے ایک بہترین آرام دہ کار میں سیٹ کنفرم کرائی جس کی روانگی سوا ایک بجے کی بتائی
۔ دن کا ایک بج چکا تھا سو لاری اڈہ پہنچے ۔جہاں پر مولنا تاج صاحب ،مولنا زید
فاروقی صاحب ،محمد سعد،محمد صدام ،محمد اکرام اور دیگر اہل علاقہ نے نم آنکھوں کے
ساتھ الوداع کیا ۔یوں اللہ کے فضل وکرم سے بغیر کسی پریشانی کے یہ دورہ اپنے
اختتام کو پہنچا۔ اہل علاقہ کی مہمان نوازی ،محبتوں اور یادیوں کو سپرد قلب کرکے
ہمیشہ کیلئے اپنی یادوں کی زینت بنا کرتر آنکھوں بوجھل قدموں اور غمناک دل کے ساتھ
پنجاب کی طرف رخت سفر باندھا۔وہ لاشعور سے شعور تک۔وہ ماضی ۔۔سے ۔۔حال تک۔۔وہ
لمحے۔۔ قربتیں ۔۔وہ ساعتیں۔۔وہ اجنبیت سے اپنائیت ۔۔تک۔۔کا سفر۔۔۔استودع اللہ
دینکم وامانتکم و خواتیم اعمالکم۔۔۔۔
تحریر ۔۔طارق محمود الخطاب
Thank you for visiting our website