google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 سکے کا دوسرا رخ۔ (پاکستان میں ہونے والی چائلڈ لیبر ایکٹ کی خلاف ورزیوں اور معاشرتی بے حسی کی عکاس تحریر۔قاری کا مکالہ نگار کی رائےسے متفق ہونا ضروری نہیں)

سکے کا دوسرا رخ۔ (پاکستان میں ہونے والی چائلڈ لیبر ایکٹ کی خلاف ورزیوں اور معاشرتی بے حسی کی عکاس تحریر۔قاری کا مکالہ نگار کی رائےسے متفق ہونا ضروری نہیں)

TMK News | اردو
0

 

 

ماسک ۔۔ماسک۔۔ماسک ۔۔"میں نشست پر برجمان کتاب کی ورق گردانی میں مصروف تھا۔یکایک عقب سے آنے والی آواز نے چونکا دیا ۔پیچھے مڑ کردیکھا تو ایک چودہ پندرہ سالہ لڑکا سر پر ٹوپی ،آنکھوں پر چشمہ ،چہرے پر چھائی ویرانی سجائے ایک ماسک والا ڈبہ لئے نشستوں کے درمیان چکر لگا رہا ۔"کرونا ختم ہوئے مہینہ گزر گیا اس کو دیکھو ماسک ماسک لگا رکھی ہے۔۔ ناک میں دم کررکھا ہے"۔ایک صاحب اپنی نشست پر بڑبڑائے۔

گاڑی فراٹے بھرتے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی ۔میری نظر سامنے نظر آنے والے بورڈ پر پڑی "بلکسر 10 کلومیٹر"۔اس کا مطلب کہ مزید اگلے چار گھنٹوں تک ہم اس نشست کے مالک تھے ۔نیند کوسوں دور تھی میں نے نشست پر ٹیک لگا کر آنکھیں موندھ لیں۔مختلف خیالات آگھیرا۔میری حیثیت میرا رول اس معاشرے میں کیا ہے ۔ایک عام فرد ۔ایک معلم ۔ایک سوشل ورکر ۔ایک سرکاری عہدہ دار ۔ "چائلڈ پروٹیکشن ،چائیلڈ لیبر" نام کا ایک جملہ میرے لاشعور کے پردوں سے نکل کر شعور کی پردہ سکرین پر نمودار ہوا۔ایک عام انسان ہونے کے ناطے مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تھی ۔عوامی نمائندہ ہونے کے ناطے میں اس لفظ کو" ورق "کی زینت بنا کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوچکا تھا ۔بطور سوشل ورکر میری اور بہت سی ذمہ داریاں تھیں۔معلم ،استاذ،روحانی باپ۔میری ایک اپنی دنیا ہے جس کا میں خود خدا ہوں میری اپنی ترجیحات ہیں ۔میری اپنی ایک اجارہ داری ہے جس کسی دوسرے کی دخل اندازی مجھے گوارا نہیں۔میرے اپنی عدالتیں میری اپنے فیصلے کسی دوسرے کو اس میں بھٹکنے کی اجازت نہیں ہے۔دھرم کے سب سے بڑے ستون کو میں تھام کر رکھا ہوا ہے ۔میرے مآخذ(سورسز)" لوح محفوظ "ہیں۔۔اگر کسی کوان کا حصول چاہئے تو وہ صرف اور صرف" میرے "پاس ہیں ۔دنیا کا ہر شخص میری نظر میں ہوس پرست ہے ۔۔ایک میں ہوں کہ جو مخلص ، پارسا،پاکیزہ تر ہوں۔میری اپنی ترجیحات،،میرا اپنا من۔۔جو کامیاب ہوا وہ سب میری وجہ سے۔۔جو ڈی ٹریک ہوا اس میں سارا قصور اسی کا تھا ۔۔میرے" لوح محفوظ "سے جو راہ فرار اختیار کیا ۔۔اسی کا تو اسے صلہ ملا۔۔دس میں ایک کامیاب ۔۔اس کا کریڈٹ مجھے ۔باقی دہائی ساری ناکام وہ ان کا اپنا قصور ۔۔۔میری اپنی دنیا ۔۔۔ایک میں ہی ۔۔مخلص ۔۔ایک میں ہی۔۔پارسا۔۔ ۔۔ ہاں وہ گنتی کے چند افراد ۔۔جنہوں نے منزل پالی۔۔وہ ہی تو میرا نیکیوں کا اکاونٹ ۔۔بھر رہے تھے۔۔وجہ جو میں تھا ۔۔ان کا تو کوئی کمال نہیں۔۔کس حال میں سفر طے کیا ۔۔کیسے گھٹن مرحلے آئے۔۔کن حالات سےگزرا وہ سپاہی۔۔نظریاتی موت کو کتنے قریب سے دیکھا ۔۔بارود کی بارش ۔۔آگ و خون کے کھیل میں ۔۔۔اس کا یہ سفر کیسے ۔۔مکمل ہوا۔۔۔مجھے اس سے ۔۔کوئی غرض نہیں تھی۔۔ہاں ۔۔اس کی فتح کا کریڈٹ مجھے جاتا ہے۔۔صرف مجھے ۔۔باقی اس کے سینکڑوں ساتھی ۔۔کسی بیابان۔۔کسی جنگل ۔۔۔کسی درندے۔۔کسی انجانی گولی۔۔۔کا نشانہ بنے ۔۔وہ ان کی اپنی کوتاہیاں تھیں ۔۔بہرحال ان میں سے جو بھی ٹارگٹ کو پہنچ جاتا ۔۔اسی کا کریڈٹ میں نے لینا تھا ۔۔چند ٹکوں ۔۔چند عکس بندیوں کے ساتھ۔۔کافی لمبا سفر تھا ۔۔اس مجھے مشکل حالات سے گزر کر ۔۔کریڈٹ لینا تھا ۔۔اس میں کپڑے پر دھول بھی جم سکتی ۔۔جیکٹ بھی خراب ہوسکتی ۔۔مجھے تھکاوٹ کا سامنا بھی ہوسکتا تھا ۔۔۔اتنی سخت تکلیفوں سے گزر کر کریڈٹ اپنے نام۔۔کرنا ۔۔یہ بھی تو جان جوکھوں کا کام۔۔تھا۔۔ایک میں ہی مخلص ۔۔۔ایک میری ہی دنیا ۔۔۔ایک میری ہی ترجیحات۔۔۔باقی سب ۔۔ہوس پرستی۔۔جنسی تسکین کا حصول۔۔بدتہذیبی کی ۔۔دنیا ہے۔۔کیونکہ۔۔۔میری اپنی دنیا ۔۔۔ایک میں ہی ۔۔مخلص ۔۔ایک میں ہی۔۔پارسا۔۔ ۔فقط دو جملے۔۔فقط ایک سفر۔۔فقط چند لمحے ۔۔جو کسی ۔۔راہی کا حوصلہ ۔۔بڑھاتے ۔۔لیکن ۔کیوں ۔۔میرے پاس ۔۔وقت کہاں ۔۔آخر کریڈٹ بھی تو لینا تھا ۔۔نقیب محفل کی پرزور آواز ۔۔ایمپلی فائر ۔۔اور ۔۔لاوڈ کی مشترکہ ۔۔تیز شور۔۔محفل کی رونق۔۔اور کریڈٹ لینے کی دھن۔۔۔سب کچھ ایک ۔۔ساتھ تھا ۔۔جس سے نقار خانے میں طوطی کی آواز۔۔وہ دور کسی ویرانے میں۔۔دور کسی صحرا میں۔۔دور کسی انجانی جگہ پر۔۔کسی انجانی نکڑ پر۔۔کسی نامعلوم صحرا میں۔۔کہیں نشتوں کے درمیان۔۔بند ہوکر ۔۔رہ گئی۔۔مجھے کیسے سنائی دیتی۔۔میری اپنی دنیا ۔۔۔ایک میں ہی ۔۔مخلص ۔۔ایک میں ہی۔۔پارسا۔۔ یہ دنیا کا ایک قاعدہ بن چکا تھا کہ فاتح کے دعویدار بہت ہوتے ہیں لیکن شکست کا ذمہ دار صرف محاذ پر لڑنے والا سپاہی ۔۔شکست کا کوئی ولی وارث نہیں ہوتا ۔۔وہ شکست علمی ہو ۔۔۔یا عسکری ہو ۔۔یا سیاسی محاظ ہو ۔۔۔یا کسی بھی شعبے میں ۔۔اس کا ذمہ دار وہی ہوتا ہے۔لیکن جب فتح،منزل،مقصود،ٹارگٹ اور آخری سٹاپ آجائے تو اس کا کریڈٹ ہر ایک لینے کی کوشش کرتا ہے ۔

"یتیم خانہ چوک۔۔شیرا۔۔کوٹ۔۔نیازی۔۔اڈا۔۔" کان میں پڑنے والی آواز نے چونکا دیا ۔نشست سے اٹھ کر اپنے سامان سفر کو دیکھا ۔کپڑوں پر پڑنے والی سلوٹیں ناگوار لگیں۔۔جیکٹ پر کافی گرد پڑ چکی تھی ۔۔آخر کریڈٹ بھی تو لینا تھا ۔۔چند ٹکے ۔۔چند مصنوعی سجاوٹی گل۔۔یہ اس کریڈٹ کی کل قیمت تھی۔آخر کیوں ۔۔۔۔میری اپنی دنیا ۔۔۔ایک میں ہی ۔۔مخلص ۔۔ایک میں ہی۔۔پارسا۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

Tags

Post a Comment

0Comments

Thank you for visiting our website

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !