میرے وطن کی ڈوبتی ناؤ۔۔اور نیرو
کی بانسری!
تحریر۔۔۔طارق محمود الخطاب
روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا
رہا تھا‘‘ یہ محاورہ عرصہ دراز سے استعمال ہوتا ہے۔کالموں میں موضوع سخن کے طور پر
بھی برملا استعمال کر لیا جاتا ہے ،کبھی حکمرانوں تو کبھی سرکاری محکموں کی کج
ادائیوں پر روم کو جلا کر نیرو سے بانسری بجوا دی جاتی ہے ۔آئیے ناظرین نیرو کے
حالات زندگی سے نقاب اٹھاتے ہیں ۔نیرو کو اپنے مشاغل کی بنا پر رسوا کرنے والی
شہرت دوام ملی۔نیرو اقتدار کا رسیا تھا اور اس نے لگ بھگ 20,19سال سلطنت روم پر
حکمرانی کی ۔نیرو شہنشاہ روم سیزر آکسٹس کا نواسہ تھا ۔وہ ابھی بچہ ہی تھا کہ اس
کے ماموں شہنشاہ غیوث کالی گولا نے اسے اور اس کی ماں ایگری پینا کو جلا وطن کر
دیا ۔دونوں ماں بیٹے کو ٹینی پونیتان کے جزیرے میں بھجوا دیا گیا تھا جہاں اپنے
شہر ،اپنے گھر ،اپنی گلی اور اپنے دوران پر پل پل گراں گزرا۔دو سال کی جلا وطنی کے
بعد شہنشاہ روم نے اپنی بہن اور بھانجے کو واپس بلوا لیا مگر نیرو ماموں کو ایک
آنکھ نہ بھاتا تھا۔ماں نے بھائی کے بگڑے تیور دیکھ کر اپنے بیٹے کو تعلیم حاصل
کرنے کیلئے یونان بھجوا دیا ۔ادھر ایگری پینا بیٹے کو یونان بھجو ا چکی تھی ،ادھر
اس کے رشتے کے چچا کلاؤ ڈےئس نے اس کے بھائی غیوث کالی گولا کے تخت کا تختہ نکال
کر اسے موت کے حوالے کر دیا اور خود اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔نیرو کی ماں نے موقع
غنیمت جان کر نئے بادشاہ سے ڈیل کرتے ہوئے اسے شیشے میں اتار کر اس سے شادی کر لی اور
اپنے بیٹے کو ولی عہد نامزد کرا دیا۔بیٹے کی نامزدگی کے بعد ماں نے کھمبی (مشروم)
کا سالن پکایا ،اس لذیذ سالن میں زہر ملا کر نئے شہنشاہ کو کھلا دیا ،شہنشاہ اگلے
جہان سدھار گیا اور نیرو روم کا نیا شہنشاہ بن بیٹھا ۔ایگری پینا نے شہنشاہ کا
درجہ حاصل کرتے ہی بیٹے کے سر پر سہرا باندھنے کی حسرت پوری کی مگر جلد ہی اس کا
بیٹا اپنی بیوی سے اکتا گیا اور وہ پوپائیا نامی نئی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو گیا
لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ اپنی ماں کے ہوتے ہوئے شہنشاہ ہو کر بھی اپنی محبت نہیں
پا سکتا لہذا اس نے من کی مراد پانے کیلئے ماں کو ابدی نیند سلا دیا اور راستہ
ہموار ہونے پر اس نے اکتاویا کو طلاق دی اور پوپائیا سے بیاہ رچا لیا ۔نیرو
کلاسیکی رومن موسیقی کا دلدادہ تھا ،وہ بانسری بجانے کے ہنر میں یکتا تھا اور ایک
منجھا ہوا پختہ کار بانسری نواز تھا ۔وہ بانسری پر اپنی دھنیں خود ہی بناتا تھا
۔وہ گیتوں کے بول بھی خود ہی لکھتا تھا ،وہ گاتا بھی خود تھا ۔وہ لوگوں کا بہت بڑا
ہجوم جمع کرتا تھا پھر تالیوں کے شور میں بے تابانہ انداز میں ادھر ادھر دیکھتا
تھا اور پھر اپنی ہی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر بانسری بجا کر خود بھی وجد میں آ جاتا
تھا اور سامعین کو بھی وجد میں لے آتا تھا۔
نیرو اپنے پرائیویٹ تھیٹر میں بانسری
بجا رہا تھا ۔نیرو کے عہد کے واقعات لکھنے والا مورخ طوسی طس رومی سینٹ کا ممبر
لکھتاہے کہ اس کے مہمان نیم دراز ہو کر عالم سرور میں نیم وا آنکھوں سے نیرو کو
بانسری بجاتا دیکھ رہے تھے ایسے میں نیرو کا ایک منہ چڑھا ملازم فاؤن دوڑتا ہوا
آیا اور چیختے ہوئے بولا ’’ اے شہنشاہ روم، اے دیوتاؤں کے دیوتا، اے عظیم نیرو میں
اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھتا ہوا آ رہا ہوں کہ روم جل رہا ہے ‘‘۔نیرو نے لمحہ
بھر ٹھہر کر پوچھا کہ’’ کیا میں اس دھن کو یہیں پر ہی چھوڑ دوں اور اگر میں اس دھن
کو یہاں پر ہی چھوڑ دوں تو کیا میں جلتے ہوئے روم سے اٹھتے ہوئے شعلوں کا نظارہ کر
سکوں گا‘‘۔ اسے تو آگ کے شعلے کہیں نظر نہیں آ رہے۔فاؤن نے چلا کر کہا ’’ عالم
پناہ پورا شہر شعلوں کا سمندر بن چکا ہے ،دھویں نے ماحول میں گھٹن پھیلا دی ہے ۔دھویں
کے بادلوں میں گھر کر لوگ دم گھٹنے سے مرتے جا رہے ہیں ۔روم کے باشندے جس طرف بھی
منہ کرتے ہیں ،آگے آگ ہی آگ ہوتی ہے‘‘۔ آتشزدگی کے ساتھ ہی روم نے لوٹ مار کے
دلدوز مناظر دیکھے ۔پہلی صدی عیسوی کی عالمی سپر پاور روم نے دنیا کے کونے کونے سے
لوٹ مار کر کے جس قدر دھاتیں جمع کی تھیں سب پگھل رہی تھیں اور سب لٹتی جا رہی
تھیں ۔دنیا بھر کے مختلف مقامات سے آئے ہوئے لوگ اہل روم کو جلتے اور کراہتے ہوئے
دیکھ رہے تھے ۔اب شہر میں آگ پھیل رہی تھی ،جنگ پھیل رہی تھی اور شعلوں کی لپیٹ سے
بچنے والوں کے قتل عام کی وبا پھیل رہی تھی ۔
مورخین کہتے ہیں کہ عظیم آتشزدگی کے
دوران قتل عام خود شہنشاہ نیرو کرا رہا تھا ۔شہر میں قتل عام ہونے والے جتھوں کی
کمان نیرو کے ہاتھ میں تھی ۔شہنشاہ روم نے تگلی نس سے شکایت بھرے لہجے میں کہا ’’
میں نے شعلے تو دیکھے نہیں ،مجھے آگ تو نظر نہیں آئی اور مجھے یہ ماننے پر مجبور
کیا جا رہا ہے کہ میں شہر کو آتش زدہ قرار دوں‘‘۔جب نیرو یہ جملے ادا کر رہا تھا
تو اس کے لہجے سے محض شکایت نہیں چھلکتی تھی بلکہ اس کی شکایت میں حقارت ،توہین
،تضحیک اور بد لحاظی بھی امڈ امڈ کر چھلک رہی تھی ۔مورخین آج بھی کہتے ہیں کہ ہاں وہ
نیرو ہی تھا جس نے روم کو آگ کے شعلوں میں دھکیل دیا تھا ۔مورخین کے مطابق اگر یہ
درست ہے کہ شہر میں آگ نیرو نے لگوائی تھی تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس روز
لاکھوں لوگوں کا قتل عام بھی اس نے ہی کرایا تھا ۔یہ ایک مہیب،کریہہ،سفاکانہ اور
بے رحمانہ حقیقت ہے کہ نیرو نے سوچ سمجھ کر ،جان بوجھ کر ،مکمل ہوش و حواس میں روم
کو آگ لگوائی تھی اور یہ شرمناک داغ بھی نیرو کے ماتھے پر سجا ہے کہ روم میں اس
روز موجود وحشت،غیض وغضب اور جنون بھی نیرو کا پیدا کردہ تھا جو قتل عام کی صورت
میں ظاہر ہو رہا تھا ۔شہر کا نشیبی حصہ دھویں میں ڈھک چکا تھا ،دھویں کے دیو ہیکل
بادل زمین کو ڈھانپے ہوئے تھے ۔وادی کے اوپر پل کی شکل میں ستونوں کے سہارے بنائی
گئی آبی گزرگاہیں ،محلات ،مکانات ،باغات اور درخت دھویں کے بادلوں میں گھر کر چکے
تھے اور اس ہولناک منظر کے پیچھے پہاڑیوں پر آگ کے شعلے لپک لپک کر لوگوں کو اور
ان کے گھروں کو اور زندگی کی ساری علامتوں کو مٹاتے جا رہے تھے ۔وہ آگ ہر چیز کو
راکھ کرنے کے بعد خود ہی بجھتی ہے جس کے بجھانے والا کوئی نہ ہو۔بالآخر یہ آگ خود
بجھ گئی۔نیرو نے روم کو کیوں جلایا ۔عالمی سپر پاور کے حکمران کو کیا سوجھی تھی کہ
اس نے اپنے انتہائی طاقتور دارالحکومت کو نذر آتش کر دیا ۔مورخین کہتے ہیں کہ اس
کے عظیم ترین منصوبوں میں سب سے بڑا منصوبہ یہ تھا کہ وہ پورے روم کے ایک تہائی
حصے کو ملیا میٹ کر کے اس پر اپنے محلات تعمیر کرائے گا جنہیں دنیا نیرو پولس(نیرو
کے محلات) کے نام سے جانے گی ۔فاؤن پھر چلایا ’’ شہنشاہ اعظم ،عالم پناہ ،ظل الٰہی
،آقائے ولی نعمت روم راکھ کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے ،ہر چیز جل رہی ہے ،نیرو نے فاؤن
کا آخری جملہ سن کر ہونٹوں پر بانسری رکھ لی اور گزشتہ رات اپنی بنائی گئی دھن پر
بانسری کے سر بکھیرنے لگا ۔تالیوں کے شور میں بانسری کے سر جاگ رہے تھے ،روم جل
رہا تھا ،نیرو بانسری بجا رہا تھا۔نیرو کی لگائی گئی آگ نے آدھے روم کو جلا کر
خاکستر کر ڈالا۔روم کے 14 میں سے 10اضلاع متاثرہوئے 4اضلاع کا تو نام و نشان مٹ
گیا ۔یہ آگ تقریباً 9دن تک جلتی رہی اور پھر خود ہی بجھ گئی ۔نیرو نے عیسائیوں پر
آگ لگانے کا الزام لگا کر ان پر بہت ظلم ڈھائے ۔انہیں ہولناک سزائیں دیں کئی
بدنصیبوں کو کتوں کے آگے زندہ پھینک کر موت کی سزا دی گئی اور کئی ایک کو زندہ آگ
میں پھینک کر جلا دیا گیا ۔پھر اس نے روم کی تعمیر نو کے نام پر امیر اور غریب کی
تخصیص کئے بغیر ان پر یکساں ٹیکس لگا دیے ۔ پورے روم میں جگہ جگہ بغاوتیں شروع ہو
گئیں ۔ نیرو کی اپنی فوج نے اس کے خلاف بغاوت کر دی کیونکہ جب مکافات سے سیاہ بختی
وارد ہوتی ہے تو ساتھی بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور سایہ تک بھی انسان سے جدا ہو
جاتا ہے ۔نیرو کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا ۔اس کی فوج نے اس کا تعاقب کیا ۔ 31برس
کی عمر میں اس نے خود کشی کر لی ۔روم کے مشرقی صوبوں میں یہ بات زبان زد عام تھی
کہ نیرو مرا نہیں وہ واپس آئے گا لیکن مرنے والے بھلا کب واپس آتے ہیں ۔اس طرح
تاریخ کا ایک کردار اور اپنی ماں اور دو بیویوں کا قاتل نیرو اپنے انجام کو پہنچا۔
حکومت کے
خلاف اپوزیشن جماعتوں نے جوتحریک شروع کی تھی لاہورجلسہ میں وہ تحریک نقطہ عروج
کوچھورہی تھی لاہورجلسہ ناکام کرنے کے لیے حکومت وہی روایتی ہتھکنڈے آزمائے
مگرحکومت ناکام رہی اورلاہورکامعرکہ بھی اپوزیشن کے نام رہا،جلسہ سے دودن قبل
کابینہ میں تبدیلی کی گئی اورشیخ رشیدکووزارت داخلہ کاقلمدان سونپ کراپوزیشن
کوپیغام دیاگیا مگراپوزیشن نے اس تبدیلی کوزیادہ سنجیدہ نہیں لیا حکومت نے
بوکھلاہٹ میں ایک اورقدم اٹھایاکہ وفاقی کابینہ نے چھٹی کے دن ہنگامی طور پر ایک
قانون میں ترمیم کی اور بغاوت کے مقدمات کے اندراج کا اختیار وفاقی سیکرٹری داخلہ
کو دے دیا سیکرٹری داخلہ کے علاوہ صوبائی حکومتوں کی منظوری سے بھی بغاوت کا مقدمہ
درج ہو سکے گاجس سے ظاہرہوتاہے کہ کرپشن اورچوری کے ناکام نعرے کے بعداب غداری
کارڈکھیلاجائے گا مگرہرگزرتے دن کے ساتھ گیم حکومت کے ہاتھ سے نکلتی جارہی ہے ۔
مینارپاکستان
جلسہ میں کتنے لوگ شریک ہوئے یہ سوال اب بے معنی ہوکررہے گیاہے کیوں کہ اپوزیشن
جماعتیں عوام کواپنابیانیہ سمجھانے میں کامیاب ہوگئی ہیں عوام حکومتی اورانتظامیہ
کے روایتی ہتھکنڈوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے میدا ن میں نکل رہے ہیں،حکومتی
جبرکاحصارٹوٹ چکاہے اورہرنئے دن کے ساتھ حکومت مخالف اجتماع میں اضافہ ہورہاہے
ملتان جلسہ میں رکاوٹوں کے باوجود اپوزیشن کے جلسے کے بعد اگرچہ حکومت نے
لاہورجلسہ میں رکاوٹ نہ ڈالنے کااعلان کیا مگرمخالفین پرمقدمات کی بھرمارکردی
،ہوٹل مالکان سمیت سائونڈسسٹم ،لائوڈسپیکرز،کرسیاں اوردیگرسہولیات مہیاکرنے والوں
کے خلاف مقدمات بنانے کااعلان کیالیکن حکومت کایہ ہتھکنڈہ بھی کام نہ
آیا۔لاہورجلسہ روکنے کے لیے کورونا کے پھیلائو اور دہشتگردی کے خطرے سمیت کئی
طریقوں سے خبردار کیا ہے لیکن حزبِ اختلاف نے یہ جلسہ ملتوی کرنے سے انکار کیا
ہے۔مینارپاکستان کے متصل گرائونڈکوپانی سے بھرنے کی کوشش کی مگراقبال پارک ڈیم نہ
بن سکی ، لاہور کے ڈپٹی کمشنرنے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے اپوزیشن رہنمائوں کوڈرانے
اورخوف زدہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم کے رہنمائوں مریم نواز شریف،
بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمان سمیت خواجہ سعد رفیق، سردار ایاز صادق،
رانا ثنااللہ اور دیگر کی زندگی کو خطرہ ہے۔مگرپی ڈی ایم قیادت اس دھمکی
کودرخواعتنانہ سمجھا ۔یہ جلسے کاخوف ہی تھا کہ جلسے سے قبل سوشل میڈیاپرایسے غلاظت
بھرے ٹرینڈچلائے گئے کہ الامان والحفیظ ۔مسلم لیگ ن لاہورکے کارکنوں نے ہنگامی
بنیادوں پراقدامات کیے اورجلسہ گاہ کوسجایاجلسہ گاہ کے اندر اور اطراف کے علاقوں
میں پی ڈی ایم کے مرکزی قائدین کی تصاویر والے پینا فلیکسز آویزاں کیے گئے ۔ جلسہ
گاہ میں قائدین کے لیے 80 فٹ لمبا اور 20 فٹ چوڑا اسٹیج تیار کیا گیا۔ جلسہ گاہ
میں روشنی اور بجلی کی فراہمی کو بلا تعطل جاری رکھنے کے لیے بھی انتظامات کیے
گئے۔ جلسے کی سیکیورٹی انصار الاسلام کے رضاکاروں اور شیر جوان فورس کے حوالے
رہی۔انصارالاسلام حکومت کے اعصاب پرسوارہوچکی ہے حکومتی اقدامات بتارہے ہیں کہ آنے
والے دنوں میں وہ انصارالاسلام کے خلاف کاروائی کریں گے مگرایسی کوئی کاروائی
غیرقانونی اورغیرآئینی ہوگی کیوں کہ ملک کاوزیراعظم ٹائیگرفورس بناسکتاہے جس کے
اہلکارمخالفین اورتاجروں کوبلیک میل کرنے میں مصروف ہیں توہرسیاسی جماعت کوحق ہے
کہ واپنے جلسے اورکارکنوں کے تحفظ کے لیے رضاکارفورس بنائے ۔لاہورجلسہ کے
آغازپروزیراعظم نے اپنے کتوں کے ساتھ چندتصاویرشیئرکرکے یہ تاثردینے کی کوشش کی کہ
انہیں اس جلسے کاخوف نہیں حالانکہ یہ تصویرہی اس خوف کااظہارتھی یہ تصویرمہنگائی
،بے روزگاری کے ستائے ہوئے غریب عوام کے زخموں پرنمک چھڑکنے کے مترادف تھی ،یہ
تصویراپوزیشن کے بیانیے پرمہرتصدیق تھی کہ حکمرانوں کوعوام سے کوئی غرض نہیں یہ
عیاشیوں میں مصروف ہیں عوام اورملک تباہ حال ہوگئے ہیں ۔مطلب وہی کہ روم جل رہا ہے
اور نیرو بانسری بجا رہا ہے۔
عجب رسم ہے
چارہ گروں کی محفل میں ..لگا
کے زخم نمک سے مساج کرتے ہیں.غریب
شہر ترستا ہے اک نوالے امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں۔
لاہورجلسہ
کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی فیصلہ کن تحریک کاآغازہوگیاہے ،پاکستان ڈیمو کریٹک
موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ناجائز حکومت کو برطرف کرنے کے
لیے قوم کو کردار ادا کرنا ہوگا جس کے لیے جنوری کے آخر یا فروری کے آغاز پر لانگ
مارچ کریں گے اور اس میں استعفے ساتھ لے کر جائیں گے۔حکومت نے اپنے پسندیدہ
خبرداروں کے ذریعے یہ تاثردینے کی کوشش کی تھی کہ استعفوں پراتفاق نہیں
ہورہاپیپلزپارٹی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے مگریہ تمام فواہیں دم توڑچکی ہیں
بلاول بھٹو واضح اندازمیں کہاہے کہ اب مذاکرات کا وقت گزر چکا ہے اب کوئی بات چیت
نہیں ہوگی بلکہ لانگ مارچ ہوگا، حکومت سن لے ہم اسلام آباد آرہے ہیں، سلیکٹڈ حکومت
بیک ڈور رابطے کرنے بند کرے ہم اب استعفی چھین کرلیں گے۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدرمریم نوازاوران کی ٹیم نے اس جلسے کوکامیاب بنانے کے ساتھ ساتھ زندہ دلان لاہورکوجگانے میں اہم کرداراداکیا اقبال پارک جلسہ سے قبل ہی مریم نوازلاہورمیں ریلیاں نکال کرعوام کی توجہ حاصل کرچکی تھیں انہوں نے خوف اورڈرکاحصارتوڑاعوام کواپنے حقوق کے لیے باہرنکلنے کے لیے آوازدی جس پرعوام نے بھرپوراندازمیں لبیک کہااسی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لاہوریوں نے آج مینار پاکستان پر ایک تاریخ رقم کی ہے اور عوام دشمن کو اس مینار سے اتار کر پھینک دیا ہے، 2011 میں جس جعلی تبدیلی کا آغاز اس مقام سے ہوا تھا آج لاہوریوں نے اسے ہمیشہ کے لیے یہاں دفن کردیا۔انہوں نے کہا کہ جو شخص خدا کے لہجے میں این آر او نہ دینے کا اعلان کرتا تھا آج نواز شریف سے این آر او مانگ رہاہے ، تابعدار خان کو این آر او نہیں دیا جائے گا۔مریم نواز نے جلسے کے شرکا سے مخاطب ہوکر کہا کہ وعدہ کرو اگر اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کے لیے نکلنا پڑا تو نکلو گے اور وہاں جتنے دن رکنا پڑا تو رکو گے۔مریم نواز نے تقریر کے دوران وزیر اعظم عمران خان کے سابقہ بیانات اور تقاریر کی ویڈیو بھی چلوائی جس میں وہ نواز شریف کی تعریف کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔اپوزیشن جماعتوں کایہ اتحادمنزل کی طرف بڑھ رہاہے ایسے میں وزیراعظم اوردیگرکچھ افراد کی طرف سے ڈائیلاگ اورمذاکرات کاپتہ پھینکاگیاہے، اپوزیشن نے متفقہ طورپرموجودہ حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکارکردیاہے حکومت نے ڈھائی سال میں جوماحول بنایاہے اس میں مذاکرات ہونہیں سکتے صرف لڑائی ہوسکتی ہے پہلے صرف حکومت حملے کرتی تھی اوراب اپوزیشن نے بھی یہ لڑائی لڑنے کی ٹھان لی ہے ڈھائی سالوں میں مختلف ایشوزپر اپوزیشن کے تعاون کووزیراعظم نے ان کی کمزوری سمجھامگراب وقت گزرچکاہے جنوری سرپرہے حکومت کے پاس عوام کی فلاح کاکوئی منصوبہ نہیں ہے عوام دووقت کی روٹی کوترس رہے ہیں اورعوامی غیض وغضب ایک انقلاب کی دستک دے رہاہے
Thank you for visiting our website